Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 1 Issue 2 of The International Research Journal Department of Usooluddin

کارڈز میں کفالہ کی شرعی و فقہی حیثیت اور عصرِ حاضر کے مالیاتی اداروں میں اس کا عملی تطبیق |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060030112_1279

Pages

24-38

PDF URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/download/10/9

Chapter URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/view/10

Subjects

Kafeel Kafala Sharia Point of View of cards cards in the frame kafala Kafeel Kafala Sharia Point of View of cards cards in the frame kafala.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اس آرٹیکل کی ابتداء کرنے سے پہلے چند اصطلاحات جواس آرٹیکل میںاستعمال ہوئے ہیں ان کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔

 

 

الکفالۃ: ضمانت وگارنٹی کو کہا جاتاہے کہ کوئی شخص یہ ذمہ داری لے لے کہ اگر فلاں شخص نے دَین کی ادائیگی نہیں کی تو میں کرونگا۔
الکفیل: ضامن کو کہا جاتا ہے۔
المکفول عنہ: جس کے ذمہ دین ہو یعنی کہ اصیل۔
المکفول بہ: دین کو کہا جاتا ہے۔
المکفول لہ: وہ شخص کہ جس کا دَین ابھی کسی کے ذمہ رہتا ہو ۔جس کومدیون بھی کہا جاتا ہے۔(۱)
لغۃً، اصطلاحاً اور شرعاً کفالہ کی فقہی حیثیت

 

صاحبِ مبسوطؒ لکھتے ہیں:

 

الکفالۃمشتقۃمن الکفل وہوالضم ومنہ قولہ تعالی (وکفلہازکریا) (آلعمران: ٣٧) أی: ضمہاإلی نفسہ وقال – صلی اللہ علیہ وسلم – أناوکافل الیتیم فی الجنۃکہاتین أی ضم یتیماًإلی نفسہ.(۲)

 

’’کفالہ کفّل سےمشتق ہےاوراسکےمعنیٰ ملانےکےہےاوراسی سےاللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قول (اسنےاسکواپنےذمہ لےلیایعنی ملادیا)ہے۔ آپﷺنےفرمایا:میں اور یتیم کا دیکھ بال کرنے والے اس طرح جنت میں ساتھ ہو نگے یعنی یتیم کو اپنے سا تھ چمٹا دیا ۔‘‘

 

علامہ زحیلیؒ لکھتے ہیں:

 

الکفالۃلغۃھی الضم أوالتزام،فمنہ ولقولہ تعالیٰ وکفلھازکریاای ضمنھاالی نفسہ۔وقولہؐ اناوکافل الیتیم کھاتین فی الجنۃرواہ احمدوالبخاری وابوداودوترمذی ان سھل بن سعدؓای الذی یضمہ الیہ لیربیہ والکفیل الضامن وکفل وتکفل بمعنی واحد.(۳)

 

’’کفالہ لغت میں چمٹنے اور لازم ہونے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ۔چمٹنے کے معنیٰ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ قول بطورِ استشہاد کے کا فی ہے کہ حضرت زکریاعلیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت مریم علیہا الصلاۃ والسلام کو اپنے ساتھ ملادیا۔آ پ ﷺ نے فرمایا :میں اور یتیم کا دیکھ بال کرنے والے اس طرح جنت میں ہونگے جس طرح بیچ والی انگلی اورشہادت والی انگلی ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔یہ حدیث امام بخاری ،ابو داؤ داور ترمذی رحمہم اللہ علیہم نے حضرت سہل بن سعدؓ کی روایت سے ذکر فرمائی ہے۔ یعنی اس نے اس کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ اسکی پرورش کرےاور کفیل کے معنیٰ ضامن کے آ تا ہے۔کفَّل اور تکفَّل دونو ں ایک ہی معنیٰ میں آتے ہیں۔‘‘

 

فقہا کرام کی مذکورہ عبارات سے اس بات کا اثبات ہورہا ہے کہ کفا لہ لغۃً دو معنیٰ میں مستعمل ہو اہے ،ایک چمٹنے اور دوسرے لازم ہونے۔ انہی دونوں معنیٰ کو دلائل کےذریعے ثابت کیا گیا ہے۔کفالہ کی اصطلاحی وشرعی معنیٰ صاحبِ ہدایہ لکھتے ہیں:

 

ھی ضم الذمۃإلی الذمۃفی المطالبۃ،وقیل فی الدین،والأول أصح.(۴)

 

’’مطالبہ کرنے میں ایک کے ذمہ کو دوسرے کے ذمہ کے ساتھ ملانا ۔یا دَ ین میں ایک چیز کی ذمہ داری کو دوسرے کی ذمہ داری کےساتھ ملالیا جائے،لیکن پہلا قول سب سے زیادہ درست معلوم ہو تاہے۔‘‘

 

اسی عبارت کی مزید وضاحتصاحبِ احسن الوقایہ فرماتے ہیں کہ دوسری تعریف کےصحیح ہونے کی دو وجوہات ہیں:

 

۱۔ اگردین کفیل پر ثابت ہو جائے اور اصیل بھی بری نہیں ہے تو دَ ین دو ہو گئے ایک اصیل پر اور ایک کفیل پر حالانکہ دَین ایک تھا نہ کہ دو۔

 

۲۔ ’’الدَین‘‘کی قید لگانے سے’’کفالہ بالنفس‘‘نکل جائیگا ،حالانکہ کفالہ جس طرح مال کا درست ہے اسی طرح نفس کا کفالہ بھی درست ہے ۔انہی دو وجوہات کی بناء پر پہلی تعریف زیادہ درست ہے۔(۵)

 

مذکورہ با لا عبارتوں کے پس منظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی کو قرضہ یا کو ئی اور قیمتی چیز دینے سے خوف اس لئے محسوس کرتا ہے کہ معلوم نہیں کہ یہ شخص میرادَین یا قیمتی چیز واپس کریگا یا نہیں تو بیچ میں ایک تیسرا شخص آکر اس کی طرف سے دَین یا قیمتی چیز کی واپس ادائیگی کی ذمہ داری اپنے ذمہ لےلے۔

 

أئمہء اربعہ کے نزدیک کفالہ

 

فقہائےاحناف کے نزدیک:

 

ھی ضم ذمۃالیٰ ذمۃفی المطالبۃمطلقاًای ضم ذمۃالکفیل الیٰ ذمۃالاصیل المدین فی المطالبۃبنفس اوبدین اوعین کمغصوب ونحوہ ھذالتعریف عندالحنفیہ.(۶)

 

’’عام مطالبہ کرنے میں کفیل کے ذمہ کو اصیل کے ذمہ کے ساتھ ملانا ،چاہے وہ نفس ہو، دین ہو یا عین وغیرہ ہو،جیسا کہ غصب شدہ چیز یا اس جیسی اور اشیاء۔ یہ تعریف حنفیہ کے ہا ں ہے۔‘‘

 

شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک کفالہ:

 

واصطلاح غیرہ ھی ضم ذمۃالضامن الی ذمۃالمضمون عنہ فی التزام الحق ای الدین.(۷)

 

’’کفیل کے ذمہ کو مکفول لہ کے ذمہ کے ساتھ کسی حق کے لازم یعنی دین میں ملانے کو کفالہ کہا جاتا ہے۔‘‘

 

قرآن سے کفالہ کا اثبات

 

ذیل میں بیان کردہ آیات سے کفالہ کااثبات ہورہاہے:

 

فی قولہ تعالیٰ: ولمن جاءبہ حمل بعیروانابہ زعیم ای کفیل.(۸)

 

أویاتی باللہ والملائکۃقبیلاای کفیلا.(۹)

 

حدیث سے کفالہ کا اثبات

 

صاحبِ منہج الامام احمدؒ لکھتے ہیں:

 

وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم والزَّعیم غارم . وھوالکفیل.(۱۰)

 

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : کفیل ضامن ہے۔‘‘

 

صاحبِ مبسوط لکھتےہیں:

 

وقال – صلی اللہ علیہ وسلم – أناوکافل الیتیم فی الجنۃکہاتین أی ضم یتیماًإلی نفسہ.(۱۱)

 

’’آپ ﷺنے فرمایا :میں اوریتیم کاکفالت کرنےوالااسطرح جنت میں ساتھ ہونگے یعنی یتیم کو اپنے ساتھ ملانے والا۔‘‘

 

ضمانت کس قدراہمیت کےحامل ذمہ داری نبھانے کانام ہے کہ جس کے بارے میں آپﷺنے کفیل کوجنت کی بشارت دی ہے،لیکن یہ اس وقت تک ہےکہ جس وقت تک کفالت میں حدودِ شرعیہ کی پاسداری کی گئی ہو۔اسکی اہمیت پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے صاحبِ شارح البخاریؒ لکھتے ہیں:

 

من حدیث سلمۃبن الاکوع انہ قال کناجلوس عندالنبیؐ اذااتی بجنازۃفقالوا صل علیہافقال ھل علیہ دین؟قالوالا.فصلی علیہ ثم اتی بجنازۃفقال ھل علیہ دین؟قیل نعم.قال فھل ترک شیأ؟قالواثلاثۃدنانیرفصلی علیھاثم اتی بثالثۃقال ھل ترک شیأ؟قالوالا.قال صلواعلی صاحبک. قال سیدناعلیؓاوابوقتادۃؓھماعلی یارسولاللہ فصلی علیھا.(۱۲)

 

’’حضرت سلمہ بن اکوع ؓنےفرمایا:ہم آپ ؐکےپاس بیٹھےہوئےتھےکہ اچانک ایک جنازہ آپ ؐکےپاس لایاگیاتوصحابہؓ نےعرض کیایارسول اللہﷺ ان کی نماز جنازہ ادا فرمادیجئے۔ آ پ ؐ نے فرمایا : کیا اس پر دَین ہے ؟صحابہ نے عرض کیا نہیں ۔پھر آپ ؐ نے ان کا نمازِ جنازہ پڑھادیا۔پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ کیا اس پر دَ ین ہے ؟ فرمایا گیا کہ جی ہاں ،تو آپ ؐ نے فرمایا کہ کیا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔آ پ ؐ نے ان کا نمازِ جنازہ پڑھادیا ۔پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے ؟ صحابہ کرام ؓ نے جواباًًفرمایاکہ نہیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ اپنے ساتھی کی نماز ِ جنازہ ادا کردو تو اس دوران سیدنا حضرت علی ؓاور حضرت قتادہ ؓ نے فرمایا کہ انکے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری ہمارے ذمہ ہے تو پھرآپ ؐ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھایا۔‘‘

 

مذکورہ بالا چند احادیث سے کفالہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ یہ کس قدر اہم ذمہ داری ہے کہ پہلے آپ ﷺنے مقروض صحابی کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی سےمنع فرمادی تھی ،لیکن قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری سیدناحضرت علی ؓ اور حضرت قتادہ ؓ نے اپنےذمہ لی اور اس کے بعدآ پ ؐ نے ان کی نمازِ جنازہ کی امامت فرمائی ۔

 

اجماع ِ امت سے کفالہ کا ثبوت

 

علامہ سرخسیؒ لکھتے ہیں:

 

وماثبت فی شریعۃمن قبلنافھوثابت فی شریعتنامالم یظھرنسخہ والظاھرھناالتقریرفإن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعثوالناس یکفلون فأقرھم علی ذلک وقال النبی – صلی اللہ علیہ وسلم – الزعیم غارم . قیل أنہ مکتوب فی التوراۃالزعامۃأولھاملامۃوأوسطھاندامۃوآخرھاغرامۃ.(۱۳)

 

’’سابقہ أدیان کی تمام باتیں ہماری شریعت میں اس وقت تک قابلِ قبول ہیں جب تک کہ صراحتاً انکا منسوخ ہونا ثابت نہ ہوا ہو ۔ شریعتِ اسلام میں ہر وہ کام حجت ہے جو کہ آپ ؐ کے سامنے کیا جا رہا ہو اور آپ ؐ نے اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کی کوئی با ت ارشاد نہ فرمائی ہو، بلکہ آ پ ؐ نے اس کام کے بارے میں سکوت اختیارفرمائی ہو ، اسی طرح لوگ ایک دوسرے کی ذمہ داریاںلیتے تھے ۔آ پ ؐ نے ان کو اس کام سے منع نہیں فرمایا ،بلکہ اس کو برقرار رکھنے کی تا کید فرمائی ۔ آپ ؐ نے فرمایا (کفیل تا وان چکانے کا ذمہ دار ہے )،جو کہ کفالہ کے جواز کیلئے کافی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ توراۃمیں یہ لکھا ہوا ہے کہ ضمانت کی ابتداء ملامت ہے ۔درمیان پریشانی ہے اور آخر تاوان ہے۔‘‘

 

مذکورہ بالاقول سے اجماعِ امت کاکفالہ کے جا ئز ہونے کا اثبات ہو تاہے ،بہرحال جو شخص ضامن بنے اسکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا پورا حق تمام شرعی اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہو ئےادا کرے۔اور اس میں خیانت اور دھو کہ دہی سے اجتناب کرے۔

 

کفالہ کے ارکان وشرائط فقہاءِ امت کی نظر میں

 

رکن اول :کفالہ اور اس کے منعقد ہونے والے الفاظ

 

علامہ کاسانی ؒ لکھتے ہیں :

 

فالایجاب من الکفیل ان یقول اناکفیل اوضمین اوزعیم اوغریم اوقبیل اوحمیل۔۔الخ اماالقبول من الطالب فھوان یقول قبلت اورضیت اوھویت.(۱۴)

 

’’ایجاب کفیل کی طرف سے ہوتاہےاور اس کے منعقد ہونے کے الفاظ یہ ہیں میں اس کا ضامن ہوں،ضمین ہو ں ، کفیل ہوں ،میں اس کی طرف سےقرض اداکرنےوالاہوں،اسکی طرف سے تاوان کاذمہ دارہوں،میں اس کا گارنٹیئرہوں اورمیں اس کاحمیل ہوں۔کفیل کی طرف سے مذکورہ بالاالفاظ کی ادائیگی سے کفالہ منعقد ہوجا تا ہے ۔اور مکفو ل لہ کہے کہ میں نے قبول کیا ۔ تو ایجاب اور قبول کفالہ کے رکنِ أول ہیں ۔ایجاب کفیل کی طرف سے اور قبول طالب کی طرف سے ہوتاہے۔‘‘

 

کفالہ کو معلق بالشرط کرنے کا حکم حنفیہ کے نزدیک

 

ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی لکھتے ہیں: ان کے ہاں کفالہ کو شرط کے ساتھ معلق کرنا جائز ہے، بشرط کہ وہ شرط عقد کے مناسب ہو، مثلاَ شرط وجوب حق کا سبب بنتا ہو۔کفیل یوں کہے کہ اگر اس فروخت شدہ چیز کا کوئی حقدار نکل آیا تو میں ذمہ دار ہوں۔ یا کفیل یہ کہے کہ اگر مکفول لہ نہ آیا تو میں ضامن ہوں، یا یہ کہے کہ زید فلا شہر سے غائب یا روپوش ہوگیا تو میں ضامن ہوں۔ (۱۵)

 

رکن دوم : کفیل اور اس کے شرائط

 

ان یکون الکفیل عاقلاوبالغا.(۱۶)

 

یعنی ضامن عاقل و بالغ ہو (پاگل اور بچہ نہ ہو)۔‘‘

 

کفیل میں تبرع کی اہلیت کو فقہاء نے شرط قرار دیا ہے، کیونکہ کفالہ ایک طرح سے احسان کرنے کا نام ہے ،اسی وجہ سے پاگل، نیم پاگل اور بچے کی کفا لت درست نہیں ہے۔اگر چہ وہ ولی یا وصی کی طرف سے اجازت یافتہ کیوں ہی نہ ہوں۔کفالت ایک طرح سے ذمہ داری نبھانے کا نا م ہے تو یہ کام وہی کرسکتا ہے جو کہ عقلمند ہو اور جس میں معالات نمٹانے کی سمجھ ہو ،یہی وجہ ہے کہ بچے میں یہ صفات نہیں پائے جاتے ہیں ۔

 

رکنِ سوم :مکفول لہ

 

کفیل کا مکفول لہ کو جاننا اورفقہاء کا اختلاف

 

فقہاء کا اس شرط کے بارے میں اختلا ف ہے کہ کفیل اس شخص کا ضامن بن سکتا ہے جس کو پہچانتا نہیں ہے۔ کیا مکفو ل لہ کا عاقل ،با لغ، رضامند ہو نا اور اس کا کفالت کو قبول کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ مختصراًمندرجہ ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔

 

کفیل کا مکفول لہ کیلئے معلوم ہونا،شافعیہ اور حنفیہ کا مسلک

 

حنفیہ اور شافعیہ کا مسلک

 

حنفیہ،شافعیہ اور حنابلہ میں سے قاضی کا مسلک یہ ہے کہ کفیل کیلئے مکفول لہ کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ پھر چاہے کفالہ منجزہ ہو،معلقہ ہو یا مضافہ ہو ۔اگر کفیل کومکفول لہ کا علم نہیں ہے ،جیسا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اس دلال سے لوگوں کو جو کچھ نقصان ہو اہے اس کا میں ضامن ہوں تو یہ کفالہ درست نہیں ہے،کیونکہ لوگ اپنے حقو ق کی ادائیگی کی وجہ سے مختلف الطبائع ہیں کچھ سخت مزاج ہیں تو کچھ نرم مزاج ہیں،اس لئے ضامن کو معلوم ہونا چاہئے کہ آیا وہ اس کو احسن طریقے سے اداکرنےکے اہل ہیں یا نہیں؟ امام أبوحنیفہ ؒاور امام محمؒد نے یہ شرط لگا ئی ہے کہ مکفول لہ کا بذاتِ خود یا اس کے نائب کا مجلسِ عقد میں موجود ہو نا ضروری ہے ،اسی وجہ سے ان کے ہاں اگر کسی کفیل نے اس غائب شخص کی کفالت لی جو کہ مجلسِ عقد میں موجود نہ تھا ،لیکن جونہی اس کو خبر ملی اور اس نے اجازت دیدی تو یہ کفا لہ درست نہیں ہو گا ،کیونکہ مجلس میں حاضر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طرف سے قبولیت نہیں پائی گئی ،عقلی دلیل یہ ہے کہ کفالت میں تملیک کی معنیٰ پائی جاتی ہے تملیک بغیر ایجا ب وقبول کے حاصل نہیں ہوتی ہے۔اورعقد کے تا م ہونے کیلئے اسکے صیغوں کا تا م ہو ناضروری ہے۔(۱۷)

 

امام ابو یوسف کا مسلک

 

امام ابو یوسفؒ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں :ایک یہ ہے کہ مکفول لہ کا مجلسِ عقد سے غائب ہو نے کی صورت میں بھی کفالت درست ہوجائیگا اس کے قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ کفیل کو مکفول لہ کا علم ہو ،کیونکہ کفالت دین کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے مشروع کیا گیا ہے،جب مکفول لہ معلوم نہیں ہو گا تو کفالت کا مقصد حاصل نہیں ہوگا۔(۱۸)

 

مالکیہ ،حنابلہ اور شافعیہ کا مسلک

 

مالکیہ حنابلہ اور شافعیہ کے ہاں صحیح قول کے مطابق مکفول لہ کا عدمِ معرفت کفالت کے درست ہونے پر کوئی اثر نہیں ڈالتا ہے ،مثلاً ضامن یہ کہے کہ میں زید کے اس دین کا جوکہ لوگوں کا اس پر ہے اس کا ضامن ہوں ،حالانکہ ضامن ان لوگوں کو جن کادین زید پر ہے قطعاً نہیں جا نتا ہے تو اس صورت میں کفالت درست ہو جا ئیگا ۔دلیل حضرت أبو قتادہ کی روایت ہے کہ جس میں انہوں نے اس میت (مکفول لہ )کی کفالت اپنے ذمہ لی تھی کہ جس کو یہ جانتے بھی نہیں تھے ۔(۱۹)

 

مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہوا کہ مکفول لہ کے عدمِ معرفت سے بھی کفالت درست ہو جا ئیگا ۔

 

مکفول لہ کے عاقل وبالغ ہو نےکی شرط میں فقہاء کا اختلاف

 

مالکیہ ،حنابلہ اور امام أبو یوسف کا مسلک

 

مالکیہ، حنابلہ اور امام أبو یوسفؒ کا مسلک یہ ہے کہ مکفول لہ میں عاقل و بالغ ہونے کی شرط لگا نا ضروری نہیں ہے،کیونکہ کفالت محض کفیل کے قبول کرنے سے بھی منعقد ہوجا تا ہے اس میں مکفول لہ کے قبو ل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور قبولیت کا اہل ہو نا بھی اس کیلئے ضروری نہیں ہے ۔(۲۰)

 

امام أبوحنیفہ اور امام محمد مسلک

 

امام أبو حنیفہؒ اور امام محمدؒ نے یہ شرط لگا ئی ہے کہ مکفول لہ کا عاقل با لغ ہو ضروری ہے،کیونکہ کفالت میں ایجاب کفیل کی طرف سے اور قبول مکفول لہ کی طرف سے ہوتا ہے۔(۲۱)

 

رکنِ چہارم: مکفول عنہ

 

بعض فقہاء نے یہ شرط لگا ئی ہے کہ کفیل کیلئے مکفول عنہ کا پہچاننا ضروری ہے۔بعض نے مکفول عنہ کی رضامندی کا شرط لگا یا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مکفول عنہ کو مکفول بہ کی حوالگی پر قدرت بھی ہو جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

 

کفیل کیلئےمکفول عنہ کا جاننا اورفقہاء کا اختلاف

 

جمہور فقہاء کا مسلک

 

ذھب جمھورالفقھاءمن المالکیۃ،والشافعیۃفی الأصح،والحنابلۃ،إلی عدم اشتراط معرفۃالکفیل للمکفول عنہ.۔۔۔.الخ۔(۲۲)

 

’’مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا یہ کہنا ہے کہ حدیثِ أبو قتادہ کی وجہ سے کفیل کا مکفول عنہ کو پہچانناضروری نہیں ہے،کیونکہ نبی اکرمﷺ نے ضامن سے پوچھے بغیر کہ تم مکفول عنہ کو پہچانتے ہویا نہیں برقرار رکھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شرط لازمی نہیں ہے۔اور اس وجہ سے بھی کہ ضمانت کا یہ مطلب ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے حق کے بارے میں یہ یقین دلائے کہ تمہارا حق ضائع نہیں جا ئیگا میں اس کا ضامن ہو ں تو یہ ایک حسان کی طرح ہے جس میں جا ن پہچان کوئی ضروری شرط نہیں ہے ۔یہ نذر کی طرح ہو گیا کہ جس میں حق کی ادائیگی واجب ہوتاہے ۔اس کے علاوہ کو جاننا ضروری نہیں ہوتا ہے۔‘‘

 

حنفیہ اور بعض حنابلہ کا مسلک

 

حنفیہ اوربعض حنابلہ کا یہ مسلک ہے کہ کفیل کا مکفول عنہ کو جا نناضروری ہے ،تاکہ کفیل کو یہ معلوم ہو کہ مکفول عنہ اسکے ساتھ حسن ِ سلوک کریگ۔اور شوافع نے اس میں ایک اور قید کا اضافہ کیا ہے کہ یہ معلوم ہو کہ مکفول عنہ خوشحال ہے کہ جس میں قرض کی ادائیگی کی وسعت ہے یا نہیں اور حنفیہ نے ایک ااور قید کا بھی اضافہ کیا ہے وہ یہ کہ کفیل نے مکفول عنہ کی کفالت کی جو ذمہ داری اٹھائی ہے وہ کو نسی کفالت ہے۔اگر کفالت مطلقہ، معلقہ یا مضافہ ہے تو ان میں سے مطلقہ کی صورت میں تو مکفول عنہ کی جہالت کفالت کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوگا،جیساکہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو یہ کہے کہ جو کچھ آپ نے لوگوں میں سے کسی کو بیچا یاقرضہ دیا تو میں اس کا ضامن ہوں تو یہ کفالت درست نہیں ہے ،لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں آپ کے اس فلاں مال کا ضامن ہو جو کہ فلاں پر ہے تو یہ کفالت درست ہے تو اس صورت میں کفیل کیلئے مکفول عنہ کی متعین کردہ حق معلوم ہے جو کہ اس پر لازم کردہ دین کی ادائیگی لازمی ہے۔(۲۳)

 

کفالت میں مکفول عنہ کی عدمِ رضا اور فقہاء کا اتفاق

 

جمہورفقہاءکامسلک

 

اتفق الفقہاءعلی أنہ لایشترط لصحۃالکفالۃرضاالمکفول عنہ أوإذنہ. . . .الخ۔(۲۴)

 

’’فقہاء کا اس بات پراتفاق ہے کہ کفالت کے درست ہونے کیلئے مکفول عنہ کی رضامندی یااجازت کا شرط لگانا درست نہیں ہے ،بلکہ اس کی رضامندی کے بغیر بھی کفالہ درست ہے۔دلیل حضرت أبو قتادہ کی حدیث ہے کہ جس میں انہوں نے میت کے دَین کی ذمہ داری لی تھی اس میں اسکی رضامندی اوراجازت نہیں تھی اور آپ ؐ نے اس کفالہ کوبرقرا رکھا ۔عقلی دلیل یہ ہے کہ کفالہ کا عقد حقِ مطالبہ کو پختہ کرنے کا نام ہے اور یہ التزام اپنے نفس کے حق کے بارے میں تصرف ہے ، اس میں طالب کا نفع ہے۔ مطلوب پر اس میں کوئی نقصان نہیں ہے ۔ اور دَین کی ادائیگی مکفول عنہ کی اجازت کے بغیر بھی جا ئز ہے تو اس کا التزام بہتر ہے،جیسا کہ میت کی طرف سے تاوان کی ادائیگی میں فقہاء کا اتفاق ہے یہی حکم یہاں پر بھی ہے۔

 

مکفول عنہ کا مکفول بہ کی حوالگی پر قدرت اور فقہاء کا اختلاف

 

حنابلہ اور صاحبین کا مسلک

 

کفالت کے درست ہونے کیلئے مکفول عنہ پر مکفول بہ کی حوالگی پر قدرت ہونے کی شرط لگا نا درست نہیں ہے۔ تاوان بھر کر دیناہر اس شخص کی طرف سے جس پر کسی کا حق ہو چاہے وہ زندہ ہو ،مردہ ہو غنی ہو یا تنگدست ہو درست ہے ،چاہے اس نے اس دَین کیلئے کسی کو کفیل بنایا ہو یا نہ بنایا ہو اس کی دلیل وہی مذکورہ بالا حدیث ہے کہ جس میں آپﷺ نے میت کی طرف سے دَین کی کفالت کو برقرار رکھا نہ اسکی طرف سے حوالگی تھی اور نہ ہی کوئی کفیل تھا ۔(۲۵)

 

حنفیہ کا مسلک

 

امام أبوحنیفہ ؒ نے یہ فرمایا ہے کہ مکفو ل عنہ کابذاتِ خود یا اس کے نائب کا مکفول بہ کی حوالگی پر قدرت ہو نا کفالت کے درست ہونے کیلئے شرط ہے ۔امام صاحب کے نزدیک نہ مردہ مدیو ن کے ترکہ سے اور نہ ہی کفالت بالدین ہونے کی صورت میں اس کے رقم سے ضمان دینا درست ہے،کیونکہ میت اس صورت میں ادا کرنے سے اور مطالبہ کئے جا نے کے اہل نہ ہونے کی وجہ سے عاجز ہے۔اور ضمان کہا جا تا ہے کہ دَین یا مطالبہ کرنے میں ایک کی ذمہ داری کو دوسرے کی ذمہ داری کے ساتھ ملانے کو کہا جاتا ہے اور یہاں پر نہ دَین ہے اور مطالبہ ہے۔ مدیو ن کے مرجانے کی صورت میں یہ غیر کا مال ہو گیا ہے ۔(۲۶)

 

رکنِ پنجم: محل کفالہ،مکفول بہ اور فقہاء کامسلک

 

علامہ وہبۃ الزحیلی ؒ لکھتے ہیں کہ مکفول بہ کی تین شرائط ہیں :

 

(اول ) مکفول بہ اصیل کے ذمے ہو

 

احناف کے نزدیک اس شرط کے پیش نظر کہ عین چیز بذاتِ خود قابلِ ضمانت ہو ۔پھر عین کی دو قسمیں ہیں:

 

(۱) امانت: جیسےودائع مالِ شرکت مضاربت ،عاریت ،اجرت پر لینے والے کے ہاتھ میں مزدور وغیرہ ۔

 

(۲) ضمانت: وہ خود قابلِ ضمان ہو اب خواہ قرض ہو یا کوئی عین ہو یا کوئی نفس یا کوئی کام ہو جیسے وہ چیز جس کو غصب کرکے لیا گیا ہو یا بیع فاسد کے ذریعہ اس پر قبضہ کیا گیا ہو یا خریداری کا بھاؤ معلوم کرکے اس پر قبضہ ہوگیا۔ رہی وہ عین جو امانت ہے اگرچہ اسے حوالے کرنے کی ضرورت نہیں جیسے و دائع شرکت کے اموال وغیرہ یا حوالے کرنا ضروری ہو جیسے عاریت اور اجرت پر لینے والے کے پاس مزدور خواہ وہ عین ایسی ہو کہ اس کی ضمانت دوسری چیز کے ذریعہ ہو مثلاً قبضے سے پہلے بیچنا اور رہن رکھنا وغیرہ تو ان دو کے سا تھ کفالت صحیح نہیں اس واسطے کہ وہ عین جو امانت ہے وہ قابلِ ضمان نہیں اور جس کی ضمانت دوسری چیز کے ذریعہ ہے وہ بذاتِ خود قابلِ ضمان نہیں لہذا جب قبضے سے پہلے بکی ہوئی چیز ضائع ہوگئی تو بیچنے والے کے ذمہ کچھ بھی نہیں ،البتہ خریداری کے ذمہ سے قیمت ختم ہو جائے گی اور جب رہن ضائع ہوگی تو مرتہن پہ کچھ واجب نہیں ،البتہ اس مقدار کے بقدر راہن سے قرض ختم ہو جا ئے گا۔(۲۷)

 

فعل سے مراد مکفول بہ ہے اور وہ حوالگی کا فعل ہے جیسے بیچی ہوئی چیز اور رہن کو حوالہ کرنا۔ کفالت بالفعل بھی صحیح ہے اس واسطے کہ حوالہ کرنا التزام کرنے والے کے ذمہ ہے، لہذامبیع کا بیچنے والے کے حوالے کرنا لازم ہے رہن کا قرض کی ادائیگی کے بعد کسی نہ کسی طرح مرتہن کے حوالے کرنا ضروری ہے۔(۲۸)

 

(دوم) مکفول بہ پوری طرح کفیل کی دسترس میں ہو

 

تاکہ عقد مفید ثابت ہو ، جمہور کے نزدیک یہ شرط اموال میں ہے۔ اس بناپر حدود وقصاص میں کفالت درست نہیں کیونکہ کفیل سے سپردگی مشکل ہے (عینی سزاؤں میں نیابت نہیں چلتی )اس سے کفالت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا یہ احناف مالکیہ اور حنابلہ کا مذہب ہے ان کی دلیل نبیﷺ سے منقول یہ ارشاد ہے :حد میں کفالت نہیں چونکہ کفالت بھروسہ دلانا مضبوط کرنا ہے اور حدود کی بنیاد ہے ہٹانے اور شبہات کی وجہ سے ساقط کرنے پر ہے، لہذامضبوط اس کے مناسب نہیں اور کفیل کے لیے جب مکفول بہ کو حاضر کرنا مشکل ہو تو اس سے پوری طرح حق کی وصول یابی نہیں ہوگی ۔(۲۹)

 

خلاصہ یہ ہواکہ نفس حد یا قصاص کی کفالت جس پہ حد واجب ہے اس کی ذات کی کفالت کے بغیر صحیح نہیں ،اس واسطے کہ حد ایک سزا ہے اور سزاؤں میں نیابت جاری نہیں ہوتی ،البتہ اگر کوئی شخص اس کی ذات کا کفیل بن جائے جس پر حد واجب ہے تو اس صورت میں کفالت صحیح ہے۔

 

شافعیہ فرماتے ہیں:کفالت النفس ان حدود میں جوخالص اللہ کے لیے ہیں جیسے شراب نوشی،زنا اور چوری کی حد ، ان میں جائز نہیں ، کیونکہ جہاں تک ممکن ہو انہیں ہٹانے کی کوشش کرے وہ حدود جو خالص آدمی کے لیے ہیں جیسے قصاص ، حد قذف اور تعزیر وغیرہ ان میں جان سپردگی کی کفالت جائز ہے اس واسطے کہ یہ بندے کا حق ہے لہذا کفالت صحیح ہوئی جیسے انسانوں کے باقی حقوق مالیہ صحیح ہوتے ہیں۔(۳۰)

 

امام أبو حنیفہ کے نزدیک:اس شرط پہ یہ مسئلہ متفرع ہوتا ہے کہ ذمہ داری میں کسی ایسی چیز کو فوری منتقل کرنے کی ضما نت کا التزام صحیح ہے جو کسی غیر متعینہ ذریعہ سے ہو جیسے کسی بھی گا ڑی یا جانور کے ذریعہ اس واسطے کہ اس وقت مستحق کفیل کی دسترس میں ہے لیکن کسی بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے التزام کی کفالت صحیح نہیں جو کسی خاص گاڑی یا جانور پہ ہو ، اس لئے کہ بسا اوقات کفیل بار برداری کے جانور کے ضائع ہونے سے عاجز ہوجاتا ہے ، جو نقل وحمل کا مخصو ص ذریعہ ہوتاہے۔(۳۱)

 

(سوم) دَینِ صحیح لازم ہو

 

وہ ایسا قرض ہوتا ہے جو صرف ادائیگی یامعاف کرنے سے ساقط ہوتا ہے ۔یہ شرط کفالہ بالمال کے ساتھ خاص ہے اس پریہ حکم مرتب ہوتا ہے کہ کفالۃ’’ بدل کتابت ‘‘کے ذریعہ صحیح نہیں اس واسطے کہ وہ دین لازم نہیں یا دین ضعیف ہے کیونکہ مکاتب کو اس کا اختیار ہے کہ وہ کتابت کا معاملہ فسخ کردے لہذا اس میں اعتماد کا کوئی مفہوم نہیں پایا جا رہا اسی طرح اس کی کفالت بھی صحیح نہیں جو دین نہیں ہے ۔(۳۲)

 

اقسام کفالہ اور فقہاء ِ کرام

 

صاحبِ احسن الوقایہ لکھتے ہیں :وھی ضربان بالنفس والمال..الخ۔یعنیکفالہ کی دوقسمیں ہیں:کفالہ بالنفس و المال۔

 

(۱) کفالہ بالنفس

 

کفالہ بالنفس منعقد ہوتا ہے کہ میں کفیل ہوں اس کے نفس کے وغیرہ ایسے الفاظ جس کے ذریعے بدن سے تعبیر کی جاتی ہے یانصف یا ثلث سے اور اس کی ضمانت لیتا ہوں وہ مجھ پر ہے یا میری طرف ہے میں اس پر زعیم ہوں یا میں اس کا ذمہ دا ر ہوں اور لازم ہے اس پر مکفول بہ کا حاضر کرنا اگر مکفو ل لہ نے اس کا مطالبہ کیا اگر وہ حاضر نہ کرے تو حاکم اس کو قید کرے اور اگر معین کردیا سپرد کرنے کا وقت تو اس پر یہ لازم ہے اور بری ہوگا اسکی موت سے جس کی کفالت لی ہے اگرچہ غلام ہو اور یہ کہا اس وہم کو دفع کرنے کیلئے کہ غلام تو مال ہے جب اس کا حوالہ کرنا متعذر ہو تو اسکی قیمت لازم ہوگی۔(۳۳)

 

مسئلہ یہ ہے کہ جب کفالہ بالنفس تمام ہو گیا تو اب کفیل پر لازم ہے مکفول بہ کا حاضر کرنا یعنی جس کی کفالت لی ہے جب مکفول لہ نے مطالبہ کیا کہ اس کو حاضر کرو قاضی کے دربار میں تو اب کفیل پر لازم ہے کہ اس کو حاضر کرے اور اگر وہ حاضر نہ کر سکاتو قاضی کفیل کو جیل میں ڈال دے گاکیونکہ یہ اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کررہا ہے۔ یہ اس وقت جبکہ کفیل اس کے سپرد کرنے پر قادر ہو اور پھر بھی سپرد نہیں کرتا لیکن اگر کفیل اس کے سپرد کرنے پر قادر نہ ہو تو فی الحال اسکو جیل میں نہیں ڈالاجا ئے گا بلکہ اس کو مہلت دی جائے گی تاکہ وہ مکفول بہ کو حاضر کرسکے اور اگر مکفول لہ نے کفیل کے ساتھ یہ شرط لگائی ہو کہ مکفول بہ کو فلاں معین وقت میں حاضر کرنا لازم ہوگا اور کفیل نے یہ قبول کرلیا تو اس پر مقررہ وقت میں سپرد کرنا لازم ہوگا۔(۳۴)

 

جمہور فقہاء کے نزدیک کفالہ بالنفس کا حکم

 

علامہ زحیلی ؒ لکھتے ہیں :جمہور فقہاء کےہاں کفالہ بالنفس اگر مال کی وجہ سے ہو تو اس کو جا ئز قراردیتے ہیں ۔ان میں مذاہبِ اربعہ کے ائمہ ہیں جن کی دلیل باری تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: فرمایا (یعقوب علیہ السلام نے) جب تک تم مجھے اللہ تعالی کا پکا عہد نہیں دیتے ہیں ہرگز اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔ وہ عہد یہ ہے کہ اگر تمہا را گھیراؤ نہ کیا گیا تو اسے میرے پاس ضرور لاؤگے۔(سورہ یوسف ۱۲/۶۶)اور نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے: ذمہ دار نقصان برداشت کرے گا۔ جو کفالہ کی دونوں قسموں کو شامل ہے جس چیز کا عقد کی وجہ سے حوالہ کرناضروری ہے تو عقدِ کفالت کی وجہ سے بھی سپردگی ضروری ہے ،چونکہ کفیل اصیل کو حوالہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے ۔وہ اس طرح کہ جو اسے تلاش کررہا اسے اس کی جگہ بنادے پھر دونوں کو الگ چھوڑ دیا جائے یا حوالگی کے لئے قاضی کے گماشتوں کی مدد حاصل کرے ۔(۳۵)

 

(۲) کفالہ بالمال

 

صاحبِ احسن الوقایہ فرماتے ہیں : کفالہ بالمال صحیح ہے ۔مال مکفول بہ کی مقدار معلوم ہو یا مجہول بشرطیکہ دَین دَینِ صحیح ہو اور دَین صحیح اس کو کہتے ہیں کہ جس کا بندوں کی طرف سے کوئی مطالبہ کرنے والا ہو اور مدیون سے وہ ساقط نہ ہو سکتا ہو مگر یہ کہ یا تو مدیون اسی کو ادا کردے یا دائن مدیون کو بری کردے۔ کفالہ بالمال ان الفاظ سے منعقد ہو تا ہے کہ میں کفیل ہوگیا اس کا جو تیرا اس پر ہے چاہے مقدار بیان کردے کہ ایک ہزار ہے مثلاًیا مقدار بیان نہ کرے بلکہ مجہول چھوڑدے کہ جو تیرا اس پر ہے یا تجھ کو اس بیع میں جو لاحق ہوگا اس کا میں ذمہ دار ہوں۔(۳۶)

 

جمہور فقہاء کے نزدیک کفالۃ بالمال کا حکم

 

اس میں دین کا مقدار،صفت اورعین کے اعتبار سے معلوم ہونا ضروری نہیں۔معلوم سے بھی کفالت صحیح ہوجاتی ہے مثلاً کہے میں اس کی طرف سے ہزار کاضامن ہوں اور نامعلوم سے مثلاً تمہارا جتنامال اس کے ذمہ ہے میں اس کا ضامن ہوں یا اس سودی کی جتنی ضمانت بنتی ہے اس کا میں کفیل ہوں اس واسطے کہ کفالت کی بناء وسعت پر ہے اس لیے اس میں جہالت برداشت ہوجاتی ہے۔(۳۷)

 

عصرِ حاضر میں کفا لۃ کی عملی تطبیق اور اس کی رائج صورتیں

 

علامہ وہبۃ الزحیلی کے نزدیک اس کی تین صورتیں ہیں،جوکہ حسبِ ذیل ہیں:

 

پہلی صورت : ضمان الدرک جس میں کوئی شخص خریدی ہوئی چیز کی قیمت کی ضمانت مشتری کی طرف سے بائع کے لئے لیتا ہے مثلاً یہ کہے کہ اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں اس کی طرف سے قیمت ادا کرونگا۔

 

دوسری صورت: ضمان السوقجس ضامن اس چیز کی ضمانت لیتا ہے کہ تاجر کی طرف سے جو بھی قرضہ جات ہونگے ان کی ادائیگی میں کرونگا۔

 

تیسری صورت: ضمان نقص الصنجۃأوالمکیال أوالذراعیعنی ناپ تول میں کسی بھی طرح کی کمی واقع ہو تو اس کمی کو پورا کرکے دینے کا کو ئی شخص ضمانت حاصل کرے۔

 

یہ تین قسم کے محض ضمانات ہیں ۔عقدِکفالۃ محض تبرع کا عقد ہے جس میں کوئی اجرت نہیں لی جاتی ہے۔(۳۸)

 

تحریر ی ضمانت نا مہ پر اجرت لینے کا شرعی حکم

 

مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں :بینک ضمانت دینے سے پہلے کچھ رقم مارجن اپنے ہاں رکھ کر گارنٹی دیتا ہے اور کبھی اسکے بغیر بھی دیدیتا ہے ۔بہر حال شرعاً ضمانت دینے کااجرت لینا کسی بھی امام کے ہاں جا ئز نہیں ہے ۔(۳۹)

 

تجارتی انشورنس پراجرت لینے کا شرعی حکم

 

تجارتی انشورنس جائز نہیں ہے ،کیونکہ اس میں ہر طرح سے ربا اور غرر پایا جا تا ہے ،اس لئے یہ کفالۃ کے باب میں سے نہیں ہے کیونکہ کفالۃ عقد تبرع میں سے ہے اور موجودہ انشورنس عقدِ معاوضہ میں سے ہے ۔(۴۰)

 

تکافل جائز ہے محض ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی بناء پر اور نیک کام پر اجرت نہیں لی جاتی ہے جو کہ بغیر معاوضہ کے ہو تا ہے۔(۴۱)

 

کفالت پر اجرت لینے کی شرعی حیثیت

 

مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: کفیل کے لئے نفس کفالت پر تو اجرت لینا جائز نہیں ،لیکن اگر کفیل کو اس کفالت پرکچھ عمل بھی کرنا پڑتاہے ، مثلاً اس کے بارے میں اس کو لکھنا پڑھنا پڑھنا پڑتا ہے ،اور دوسرے دفتری امور بھی انجام دینے پڑتے ہیں یا مثلاً کفالت کے سلسلے میں اس کومضمون لہ:(جس کےلئےضمانت لی گئی ہےیامضمون عنہ:جس کی طرف سےضمانت لی ہے)سےذاتی طور یاخط وکتابت کےذریعہ رابطہ کرناپڑتاہے،اس قسم کےدفتری امورکوتبرعاًانجام دیناضروری نہیں،بلکہ کفیل کیلئےمکفولہ سےیامکفول عنہ سےان تمام امور کے انجام دینے پر اجرت ِمثل کا مطالبہ کرنا جائز ہے ۔(۴۲)

 

آ ج کل جو بینک کسی کی ضمانت لیتے ہیں تو وہ صرف زبانی ضمانت نہیں لیتے ،بلکہ اس ضمانت پر بہت سے دفتری امور بھی انجام دیتے ہیں ۔ مثلاً خط وکتابت کرنا ،کاغذات وصول کرنا ، پھر ان کو سپرد کرنا ،رقم وصول کرنا ،پھر اس کو بھیجنا وغیرہ اور ان کا موں کیلئے اسے ملازمین ،عملہ، دفتر ،عمارت اور دوسری ضروری اشیاء کی ضرورت پڑ تی ہے ۔ اب یہ تمام امور جو بینک انجام دے رہا ہے یہ مفت میں انجا م دینا اس کے لئے واجب نہیں ،چنانچہ ان امور کی انجام دہی کے لئے بینک کااپنے گا ہکوں سے مناسب اجرت لینا جائز ہے،البتہ نفسِ ضمانت پر اجرت لینا جائز نہیں ۔ اور پھر بینک بائع اور مشتری کے درمیان واسطہ بھی بنتا ہے ،اور بحیثیت ِدلال یا وکیل کے بہت سے امور انجام دیتا ہے اور شرعاً دلالی اور وکالت پر اجرت لینا جائز ہے ۔ لہذاان امور کی ادائیگی میں بھی بینک کے لئے اپنے گا ہک سے اجرت کا مطالبہ کرنا جائز ہے ۔ چنانچہ اب بینک کے لئے گا ہک سے دو قسم کی اجرتوں کا مطالبہ کرنا جائز ہے:

 

۱۔ لیٹر آف کریڈٹ: جاری کرنے پر بینک کو جو دفتری امور انجام دینے پڑ تے ہیں ان امور پر اجرت کا مطالبہ کرنا جائز ہے۔

 

۲۔ وکالت یا دلالی: پر اجرت طلب کرنا جائز ہے ۔ لیکن یہ اجرتیں ان کاموں کی اجرتِ مثل سے زائد نہ ہو ،اس لئے کہ اگر یہ اجرت مثل سے زائد ہوگی تو پھر یہ تو نفس ضمان پر اجرت وصول کرنے کا ایک حیلہ بن جائے گا ۔(۴۳)

 

لیٹر آف کریڈٹ کی وضاحت اور اسکی عملی تطبیق

 

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:بین ملکی تجارت میں درآمد کرنے والا فریق (Importer)برآمد کرنے والے فریق (Exporter)کےحق میں بینک سے ادائیگی کی ضمانت حاصل کرتا ہے،اسی تحریرکو لیٹر آ ف کریڈٹLetter of Credit کہتے ہیں ۔بہر کیف لیٹر آف کریڈٹ میں کم از کم تین اورزیادہ سے زیادہ چار فریق ہوتے ہیں :

 

(الف) درآمد کنندہ (Importer) جو دوسرے ملک سے مال منگواتا ہے ۔

 

(ب) بینک جس نے لیٹر آف کریڈٹ جاری کیا ہے اور ادائیگی کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔

 

(ج) مستفید یعنی بر آمد کرنے والا فریق (Exporter) جس کے مفاد کے تحفظ کے لئے لیٹر جاری کیا گیا ہے۔

 

(د) بعض دفعہ بینک براہِ راست برآمد کنندہ سے معاملہ کرنے کے بجائے اس کے بینک کے ذریعہ واجبات کو اداکرتاہے اور کاغذی دستاویز کو حاصل کرتا ہے،جس میں اس بینک کا کھاتا موجود ہوتا ہے ،اس طرح یہ اس معاملہ کا چوتھا فریق قرار پائے گا ۔اگر لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنے والے بینک کی اپنی برانچ برآمد کنندہ کے ملک میں موجود ہو تو اس چوتھے فریق کی ضرورت نہیں پڑتی۔(۴۴)

 

مختلف حیثیتوں سے لیٹر آف کریڈٹ کی مختلف اقسام اور ان کےفقہی احکامات

 

(۱) لیٹرآف کریڈٹ میں جس رقم کی ضمانت لی گئی ہے اگر وہ ہوری رقم لیٹر جاری کرانے والے شخص یعنی امپورٹر خود بینک کو ادا کرتا ہے تو اس صورت میں بینک کی حیثیت وکیل کی ہے اور اس لئے بینک اجرتِ وکالت وصول کرتا ہے۔

 

(۲) اگریہ پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ خود بینک ادا کرتا ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ چیز کے جتنے حصہ کی قیمت بینک نے ادا کی ہے، اس کا مالک بینک ہے ،بینک اسے درآمد کنندہ کو نفع لے کر فروخت کر سکتا ہے۔ بہ شرطیکہ وہ اپنے حصہ کے لحاظ سے اس شئے کے خطرہ(Ownership Risk) کوقبول کرےکیونکہ جومالک ہونقصان اسی کے ذمہ ہوتا ہے،فقہی اعتبارسے یہ صورت مرابحہ کی ہوگی۔(۴۵)

 

(۳) لیٹرآف گارنٹی(Letter of Guarantee)ضمان کے معنیٰ گارنٹی (Guarantee) کے ہیں۔ یعنی کسی حق یا نقصان کے عوض کی ذمہ داری قبول کرنا ۔خطاب الضمان (لیٹر آف گا رنٹی ) بینک کی طرف سے جاری ہونے والے تحریر عہد نامہ کو کہتے ہیں ، جو کلائنٹ (Client) کی خواہش پر وہ لیٹر سے مستفید ہونے والے کے لئے جا ری کرتا ہےکہ بینک اس کے طلب کرنے پر مقررہ مدت کے اندر متعینہ رقماداکردے گا۔(۴۶)

 

فقہی احکام

 

(۱) لیٹرآف گارنٹی کی حیثیت کفالت کی ہے۔لہذا :

 

(الف) لیٹر جاری کرنے والا بینک ’’کفیل‘‘ہے ۔    

 

(ب ) جس کسٹمر کی طرف اس نے ذمہ داری قبول کی ہے وہ’’مکفول‘‘ہے۔

 

(ج) جس شخص یا ادارہ کے لئے ذمہ داری قبول کی گئی ہے وہ’’مکفول لہ‘‘ہے۔

 

(د) جس رقم کی ذمہ داری لی گئی ہے وہ’’مکفول بہ‘‘ہے۔

 

(۲) لیٹرآف گارنٹی کےاجراءکی اجرت حاصل کرناجائزنہیں؛اس لئےکہ:

*

یہ جاری کرنے والے کی طرف سے قرض کے ادائیگی کا وعدہ ہے ؛ لہذا ’’ اجرت‘‘ قرض نفع حاصل کرنا قرار پائے گا اور قرض پر نفع حاصل کرنا ’’ربوا‘‘ میں داخل ہے،کل قرض جرنفعاً فھوربا۔

 

  • کفالہ شرعاً عقدِ تبرع ہے اور اس کی بنیاد احسان پر ہے۔یہ’’عقدمعاوضہ‘‘نہیں ہے۔یہی اس عقد کے بارے میں جمہور فقہاء کا نقطہ نظر ہے۔دوسری رائے یہ ہے کہ بینک پورے دین کی ذمہ داری لیتا ہے ، تو اس میں اس کی حیثیت وکیل کی ہے اور وہ بہ حیثیت وکیل بینک کی طرف سے قرض ادا کرتا ہے اور وکالت کی اجرت لی جاسکتی ہے ۔ لہذا اس صورت میں اجرت لینا درست ہوگا ،لیکن یہ رائے درست نہیں آتی، اگرچہ کہ اس میں کفیل کے رقم کرنے کی صورت میں بہ ظاہر وکالت کی مشابہت پائی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے’’کفالہ‘‘ ایک مستقل عقد ہے اور اس کا مستقل حکم ہے۔

 

 

 

(۳) لیٹرآف گارنٹی جاری کرنےاوراس کےمطابق کاروائی انجام دینےکےسلسلہ میں سروس چارج(اجرت الخدمت) لینا جائز ہے جو ایسے کاموں کی مروجہ( اجرۃ المثل)سے زیادہ نہ ہو۔(۴۷)

 

کارڈ کے سلسلے میں کفالت کی عملی صورت

 

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں: کارڈ میں کفالت کی عملی صورت یہ بنتی ہے کہ کا رڈ جا ری کرنے والا بینک تاجر کے بینک اور عالمی کارڈ کمپنی کے لئے کا رڈ ہولڈر کی جانب سے ادائیگی کا ضامن بنتا ہے۔(۴۸)

 

حواشی ومراجع

 

(۱)(شرح الجلہ سلیم رستمبازالبانی ص ٣٣٥، دارالاحیاء التراث العربی،بیروت)

 

(۲)(الکتاب: المبسوط ص:١٦١۔ج:١٩۔المؤلف:محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی (المتوفی: ٤٨٣ھـ)الناشر: دارالمعرفۃ – بیروت)

 

(۳)(١۔حوالہ:المعاملات مالیہ، المعاصرہ صفحہ نمبر٩٣، دارلفکر دمشق بیروت۔وایضاً فی شرح المجلہ سلیم رستمبازالبانی،دارالاحیاء التراث العربی، بیروتوایضاً فیبدائع الصنائع ص٦٠٠ ج٤)

 

(۴)(الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی۔ص:٨٧۔ج:٣ ۔علی بن أبی بکر بن عبد الجلیل الفرغانی المرغینانی، أبو الحسن برہان الدین (المتوفی:٥٩٣ھ۔الناشر: دار احیاء التراث العربی - بیروت – لبنان)

 

(۵)(احسن الوقایہ ۔ص:٢٤٥۔ج:١۔تالیف : ابو زکریا علی محمد ۔مکتبہ صدیقیہ،سوات)

 

(۶)(شرح المجلہ ص ٣٣٠٣ سلیم رستم الباز البانی دارالاحیاء التراث العربی)

 

(۷)ایضاً

 

(۸) (سورۃیوسف٧٢)

 

(۹) (سورۃ اسرا ٩٢)

 

(۱۰)(منہج الإمام أحمد فی إعلال الأحادیث۔ص:١٥١۔ج:١۔المؤلف: بشیر علی عمر۔الناشر: وقف السلام۔الطبعۃ: الأولی 1425 ہـ - 2005 مـ)

 

(۱۱)(الکتاب: المبسوطص:١٦١۔ج:١٩۔المؤلف: محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی (المتوفی: ٤٨٣ھـ)الناشر: دارالمعرفۃ - بیروت)

 

(۱۲)(الکتاب: منار القاری شرح مختصر صحیح البخاری۔المؤلف: حمزۃ محمد قاسم۔الناشر: مکتبۃ دار البیان، دمشق - الجمہوریۃ العربیۃ السوریۃ، مکتبۃ المؤید، الطائف - المملکۃ العربیۃ السعودیۃ۔عام النشر: 1410 ہـ - 1990 م)

 

(۱۳)(الکتاب: المبسوط ص:١٦١۔ج:١٩۔المؤلف: محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی (المتوفی: ٤٨٣ھـ)الناشر: دارالمعرفۃ – بیروت)

 

(۱۴)(بدائع الصنائع ص ٦٠٠ ج ٤، ن دار الاحیاء التراث العربی، بیروت)

 

(۱۵)(الفقۃ الاسلامی و ادلتہ ص ٤١٥٠، ج ٦)

 

(۱۶)(شرح المجلہ سلیم رستمباز البانی ص ٣٣٨، ٣٣٩۔دارالاحیاء التراث العربی)

 

(۱۷)(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ۔ص:٢٩٨ ۔۔٢٩٩۔۔۔٣٠٠۔ج:٣٤ ۔صادر عن: وزارۃ الأوقاف والشؤن الإسلامیۃ – الکویت۔)

 

(۱۸)ایضاً۔(۱۹)ایضاً۔(۲۱)ایضاً۔(۲۲)ایضاً۔

 

(۲۳) (الہدایہ ص ٢٤٧، ج ٥)(بدائع الصنائع ص ٦١١، ج ٤، دارالاحیاء التراث العربی )

 

(۲۴)(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ۔(٣٠٠۔۔۔۔٣٠١۔ج:٣٤۔صادرعن: وزارۃ الأوقاف والشؤن الإسلامیۃ – الکویت۔)

 

(۲۵)ایضاً۔(۲۶)ایضاً۔

 

(۲۷)ج: ٦ الفقہ الاسلامی وادلتہ اردو ۔ص:٤٦٤۔ ٤٦٥۔٤٦٦۔٤٦٧۔ ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی ۔مترجم: مولانایوسف تنولی۔ناشر:دارالاشاعت کراچی)

 

(۲۸)ایضاً۔(۲۹)ایضاً۔(۳۰)ایضاً۔

 

(۳۱)ایضاً۔وایضاً فی شرح المجلہ سلیم رستمباز البانی،ص٣٤٥، دار الاحیاء التراث العربی، بیروت)

 

(۳۲)( الفقہ الاسلامی وادلتہ اردو۔ص:٤٦٧۔ج:٦۔ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی۔مترجم: مولانایوسف تنولی۔ناشر:دار الاشاعت کراچی وایضاً فی شرح المجلہ سلیم رستمباز البانی،ص ٤٣٤، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت۔ وایضاً فی بدائع الصنائع ص ٦٠٧، ج ٤، ن دارالاحیاء التراث العربی، بیروت)

 

(۳۳)(احسن الوقایہ ۔ص:٢٤٦۔ج:١۔تالیف : ابو زکریا علی محمد ۔مکتبہ صدیقیہ،سوات)

 

(۳۴) (احسن الوقایہ ۔ص:٢٤٦۔۔۔٢٤٧۔ج:١۔تالیف : ابو زکریا علی محمد ۔مکتبہ صدیقیہ،سوات)

 

(۳۵)(الفقہ الاسلامی وادلتہ اردو ۔بابِ کفالۃ۔ص:٤٦۵۔ج:٦۔ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی۔مترجم: مولانایوسف تنولی۔ ناشر:دارالاشاعت کراچی )

 

(۳۶)(احسن الوقایہ ۔ص:٢٥٨۔۔٢٥٩۔ج:١۔تالیف : ابوزکریاعلی محمد۔مکتبہ صدیقیہ،سوات)

 

(۳۷)(ص: ٦٧ ٤۔ج: ٦۔ الفقہ الاسلاامی وادلتہ اردو)

 

(۳۸)ایضاً۔

 

(۳۹)(ص:١١١٩ ۔ج:٢۔ الفقہ البیوع )

 

.(۴۰)۔الفقہ الاسلامی وادلتہ عربی۔ج:٦۔ناشر: دارالفکر ۔سوریہ۔دمشق)

 

(۴۱)۔الفقہ الاسلامی وادلتہ عربی۔ج:٦۔ناشر: دارالفکر ۔سوریہ۔دمشق)

 

(۴۲)( اسلام اور جدید معاشی مسائل ۔ص:٢٧٠۔٢٧١۔ج: ٥۔اسلامی بینکاری اور دور حاضر)

 

(۴۳)ایضاً۔

 

(۴۴)(جدید مالیاتی ادارے ۔ص:۳۵۔۔۴۴۔۔٤٥۔۔۴۶۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔ناشر:کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، سہارنپور،یوپی)  

 

(۴۵)ایضاً۔(۴۶)ایضاً۔(۴۷)ایضاً۔(۴۸)ایضاً۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...