Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 1 Issue 2 of The International Research Journal Department of Usooluddin

کتب سماویہ اور انسانی فکر کا ارتقاء ایک علمی و تحقیقی جائزہ |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060030112_1280

Pages

38-53

PDF URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/download/11/10

Chapter URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/view/11

Subjects

Evolution Intellectual Psalms Bible Holy Quran Evolution Intellectual Psalms Bible Holy Quran

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسان کی تخلیق کے ساتھ اس کی بنیادی روحانی و جسمانی ضروریات کی تکمیل کیلئے اللہ نے الہامی تعلیمات کا خصوصی انتظام فرمایا ، یہی اس ذات کی ربوبیت کا اظہار و شان ہے ۔اس انتظام و انصرام میں خصوصی پہلو انسان کی ذہنی استظاعت اور الہامی تعلیمات کےنزول میں ربط کاپایاجانا ہے ، کیونکہ اس ربط وتعلق کی وجہ سے جہاں انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ نشوونما پائی ہے۔وہیں اس کی فکری صلاحیتیں بھی ارتقائی سفر سے عروج کی جانب گامزن رہی ہیں اور اسی مناسبت سے انبیاء وکتب سماویہ کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔

 

نظریہ ارتقاء کے تناظر میں انسان نے زندگی غار وں میں یا جنگلوں میں،یہاں تک پکی اینٹوں کے گھر تک کےسفر میں گزاری اور ساتھ ہی ہرزمانے اورادوارمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے شناسائی اور حقیقت کی رسائی کے لئے بزرگ و محترم ہستیاں دنیا میں جلوہ افروز ہوتی رہی ہیں۔ کیونکہ انسان کو عقل دینے سے اس کے مقصود کو اس تک پہنچا دینا لازم و ملزوم امر ہے۔ دوسری جانب خود انسان کی جستجو و طلب بھی ذات باری تعالیٰ کے وجود کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔جس کی وجہ سے انسان کی رہنمائی کے لئے الہامی تعلیمات کی ضرور ت دوچند ہوجاتی ہے ۔اورچونکہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر انسان کی جسمانی و ذہنی نشوونما کے ساتھ اسی کی مناسبت سے انہیں وقتا فوقتا صحائف و کتب میں مذکور تعلیمات نازل فرمائی ہے جو انسانی فکر کو نکھارنے میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے ۔

 

الہامی تعلیمات قبل ازکتب

الہامی تعلیمات کا آغاز صحائف سے ہوتاہے۔صحیفہ وہ چیز ہے جس پر لکھا جاسکے۔[1] اسی مناسبت سے ورق کی ایک جانب، یعنی صفحہ کو بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔اس کے علاوہ قرآن کریم ، حدیث نبویﷺاورعربی ادب میں یہ لفظ کئی ایک معنی میں استعمال ہوا ہے، مثلاً نامہ اعمال، خط یا مکتوب، حکم نامہ یا فرمان اور کتب سماویہ یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے سچے رسولوں پر نازل کی جانے والی کتابوں اور احکام ہدایت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔[2]

 

صحف سماویہ کی تاریخ کا آغاز تاریخی اعتبار سے حضرت ابراہیم ؑ سے ہوتاہے کیونکہ ادیان ِ سامیہ میں حضرت ابراہیم ؑ کی حیثیت جد اعلیٰ اور اس اعتبار سے مرکز اور مبدا کی ہے۔ آپؑ کی ذات کا یہ پہلو اس خاص دائرہ مذاہب میں حضرت آدم ؑ سے مماثل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مذہبی فکر میں حضرت نوح ؑ کا ذکر آدم ِثانی کے لقب سے کیا جاتاہے، لیکن یہ لقب نسل انسانی کے دوبارہ پھیلنے کے اعتبار سے ہے، خود مذہبی فکر اور نوعیت وحی کے اعتبار سے نہیں ۔بہرحال حضرت ابراہیم ؑ ہی سے ادیان سامیہ کے نقشے کا آغاز ہوتاہے۔[3]

 

حضرت ابراہیم ؑ پر صحیفہ کے نزول کا ذکر تاریخ میں خال خال ہی موجود ہے۔ اسی وجہ سےاصطلاحی مفہوم میں حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی صحیفہ نہیں تھا۔ان کی تعلیمات زبانی تھیں جو بطریق ِ روایت ان کی ذریت کی دونوں شاخوں میں نقل ہوتی رہیں ۔بنی اسرائیل میں یہ تعلیمات زیادہ روشن رہیں اس لیے کہ ان کے اندر برابر انبیاء آتے رہے۔ بنی اسماعیل امی تھے، اس وجہ سے ان کے اندر یہ دھندلی ہوتی چلی گئیں۔ بعد میں جب تورات مرتب ہوئی تو اس میں حضرت ابراہیم ؑ کی تاریخ اور ان کی تعلیمات بھی جمع کر دی گئیں۔[4]

 

ان صحائف اور کتب کے متعلق ابو ذر غفاری سے روایت منقول ہے جس تمام صحائف کا ذکر ملتا ہے۔ارشاد نبوی ﷺہے:

 

عن ابی ذر قال قلت یا رسول اللہ کم، انزل اللہ تعالی من کتاب قال: مائۃ کتاب و اربعۃ کتب انزل علی شیث خمسین صحیفۃ، و علی ادریس ثلاثین صحیفۃ ،و علی ابراہیم عشر صحائف، و علی موسی قبل التوراۃ عشر صحائف، و انزل التوراۃ والانجیل والزبور و الفرقان۔[5]

 

”حضرت ابو ذ ر غفاریؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺسے پوچھا کہ ا للہ تعالیٰ نے کتنی کتابیں نازل کی ہیں ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا:ایک سو چار کتابیں اللہ نے نازل کیں ہیں ، پچاس صحیفے حضرت شیث ؑ پر نازل ہوئے، تیس صحیفے اخنوخ، یعنی حضرت ادریس ؑ پر اترے، دس صحیفے حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ پر اتارے گئے اورحضرت موسیٰ ؑ پر تورات کے نزول سے قبل دس صحیفے اتارے گئے، چار کتابیں تورات، زبور ، انجیل اور فرقان (قرآن مجید ) نازل ہوئیں۔“

 

چوں کہ گزشتہ انبیاء کے صحائف معدوم ہوچکے ہیں اگر کسی صحیفے کی تفصیلات موجود بھی ہے تو وہ صرف صحف ابراہیمی ہے۔ صحف ابراہیمی کے حوالے سے بھی تحریر میں لایا جانا مذکورنہیں ہے بلکہ صحف ابراہیمی سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی امت کو سنائے، پھر شام میں ان کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحٰق ؑ نے اور عرب میں ان کے بڑے بیٹے حضرت اسمعیل ؑ نے اپنی اپنی قوم کوسنائے، پھر یہ صحائف حضرت یعقوبؑ اور ان کی اولاد و اسباط میں مسلسل ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے رہے۔ جب حضرت موسیٰ ؑ مبعوث ہوئے تو صحف ابراہیمی میں موجود عبرت و موعظت اور توحید کی باتیں تورات کے وسیلے سے ان پر نازل کی گئیں اور صحف ابراہیمی منسوخ قرار پائے۔[6]

 

یوں یہ سلسلہ صحف ،کتب سماویہ کے نزول تک پہنچ جاتاہے۔سلسلہ صحف سے مزید اہم بات جو سامنے آتی ہے وہ انسان کے لئے ابتدائی تعلیمات کا زبانی ہونا ہے۔تو معلوم ہوا کہ زبا ن و بیان کی صلاحیت ہی انسان کے لئے رابطے کاپہلا سبب ہے۔اہم پہلو حضر ت ابراہیم ؑ کی تعلیمات کا ایسی فکر پر مبنی جماعت کا قیام تھا جو رہتی دنیا تک قائم رہے ۔ جس میں آپؑ نے اپنے عہد میں کام کیا اور صالح افراد پر مشتمل ایک فکر پر جمع قوم سامنے آئی ۔ یہ طاقت صرف مذہب میں ہے کہ وہ انسان کی فکر کو ایسے تبدیل کردے کہ قوم کی قوم اس کے زیر سایہ آکر مطیع و فرمانبردار بن جائے ۔ ابو الکلام آزاد اس فکری تشکیل قومیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

 

”حضرت ابراہیم ؑ جس عظیم الشان قوم کا خاکہ تیار کررہے تھے ا س کا مایہ خمیر صرف مذہب تھا اور اس کی روحانی ترکیب عنصر آب وہوا کی آمیزش سے بالکل بے نیاز تھی ۔ جماعت قائم ہو کر اگرچہ ایک محسوس مادی شکل میں نظر آتی ہے لیکن درحقیقت اس کا نظام ترکیبی بالکل روحانی طریقہ پر مرتب ہوتا ہے جس کو صرف جذبات و خیالات بلکہ عام معنوں میں صرف قوائے دماغیہ کا اتحاد و اشتراک ترتیب دیتا ہے۔“[7]

 

تعارف و مترادفات کتاب

صحائف کا تحریری صور ت میں پایا جانا کافی دشوار تاریخی معمہ ہے۔ نہ صرف صحائف بلکہ کتاب کے حوالے سے بھی تاریخ خاموش ہے ۔ کتاب کا مصدر ک ت ب ہے جس کے معنی” لکھا “کے ہیں۔[8] کتاب کے بنیادی معنوں میں”خط، مراسلے کے علاوہ قانون یا جوکچھ واجب قرارد یا جائے“وہ بھی شامل ہے۔[9]

 

جب مصر کی تہذیب میں تحریر کے فن کا آغاز ہوا اسی دور میں ”دجلہ و فرات کے کنارے سامی النسل تہذیبیں بھی علوم و فنون میں ترقی کر رہی تھیں۔جس میں نہ صرف تحریر بلکہ سب سے پہلی قانونی دستاویز کا بھی سراغ ملتا ہے۔ جو قانون نامہ حمورابی کے نام سے معروف ہے۔“[10] یہی سلسلہ آگے بڑھتے بڑھتے دیگر اقوام کی طرح عربوں میں بھی پہنچا۔ یعنی عربوں نے لکھنے کا فن اپنے سامی النسل شمالی پڑوسیوں سے سیکھا اور انھیں سے کتاب اور کتابت سے متعلق اصطلاحیں اخذ کیں۔[11]

 

لیکن دنیا میں کتابی صورت میں لکھی جانی والی پہلی کتاب کا اعزازقرآن حکیم کو حاصل ہے کیونکہ پرانی نظموں میں غیر زبانوں کے رسم الخط میں لکھی ہوئی تحریروں کے حوالے زیادہ کثرت سے ملتے ہیں اور اس کی کافی شہادت موجود ہے کہ قدیم شعرا کم از کم ایسی قلمی کتابوں کی ظاہری شکل و صورت سے بخوبی آشنا تھے جنہیں مطلا و مذہب سرورقوں سے مزین کیا گیاہو۔شاعرطفیل الغنوی نے اپنے ایک شعر میں پروانہ راھداری کو کتاب لکھاہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ لفظ کتاب کے معنوں میں بحیثیت ایک ادبی تالیف یا تخلیق کے ملتاہے اور اگرچہ مجھے یقین ہے کہ بعض منظومات ابتدائی زمانے ہی میں ضبط تحریر میں آچکی تھیں، تاہم کوئی تصنیف یا تالیف اس وقت تک کاغذ یا رق (Parchment) پر نہیں لکھی گئی جب تک کہ قرآن مجید کے ضبط تحریر آنے کے بعد مدت نہیں گزرچکی تھی۔[12]

 

مذکورہ بالاتحقیق اس امر کی غماز ہے کہ لکھے جانے کی صورت اختیار کرنے والی صرف کتاب نہیں ہے ،بلکہ اس کے دیگر مترادفات بھی ہیں جن کے عمومی معنوں میں لکھاجا نا موجود ہے۔مگرخصوصی طور پر ان کے معنوں میں انفرادیت بھی موجود ہے۔ قرآن نےخصوصی طور پر تمام مترادفات کا استعمال کیا ہے۔ ان الفاظ میں کتاب، اسفار،سجل،نسخہ،زبر،صحف شامل ہیں۔ عبدالرحمٰن کیلانی نے ان تمام پر مفصل بحث کے بعد ان میں درج ذیل خصوصیات کی بنیادپر تفریق قائم کی ہے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

 

”(۱) کتاب: ہر لکھی ہوئی چیز اور معروف معنوں میں کتاب (۲) اسفار : بڑی بڑی کتب (تورات کی) شروح و تفاسیر (۳)سجل: ریکارڈ رکھنے کے قابل تحریریں اور مکتوب (۴) نسخہ: نقل شدہ کتاب یاجس سے نقل کیا جائے (۵)زبر:موٹے حروف میں لکھی ہوئی کتابیں (۶) صحف: وہ لکھے ہوئے اوراق جن کو کتاب کی صورت میں جمع کیا جاسکے۔“[13]

 

کتاب چوں کہ صرف تحریر پرمشتمل چند صفحات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ دراصل یہ کردار سازی کا اہم ذریعہ ہے تو کردار کا اظہار بھی اسی سے ہوتاہے۔کتاب جہاں بہترین رفیق ہے وہیں گمراہیوں کا گہرا جنگل بھی، جہاں قانون سازی کا مجموعہ ہے وہیں تاریخ کے حسین لمحات کا مرقع بھی، جہاں فلسفہ کے دقیق مسائل کا منبع ہے وہیں زبان و ادب کے شگفتہ فن پارے بھی، جہاں کیمیات کے دھماکہ خیز تجربات کا خزینہ ہے وہیں سیاحت کے پر لطف مناظر بھی، جہاں ریاضی کے پرمغز سوالات کا گھن چکر ہے وہیں نفسیات سے نکھرتے اذہان کا گلدستہ بھی، جہاں طبعیات میں جسمانی زندگی کے ارتقاء کے مراحل ہیں وہیں دین کے روحانی اصول و ضوابط کا بیان بھی، کتاب سیاہی سے پیروئے گئے حروف کا جال ہےتو لوح ِ قلم سے لکھی گئی انسانی تقدیر کا نوشتہ بھی، کتاب سب سے بڑھ کر وحی الہیٰ سے منضبط اخلاقی اقدار و احکامات کی وہ راہ ہےجس پر چل کر ہی انسان کی دنیا وآخرت کی فلاح ہے۔ کتاب تہذیب وتمدن کی ترقی کی ضامن ہے۔ کتاب کاوجودہی تہذیب کے کامل شعور میں قدم رکھنے کی کڑی ہے۔ جب کہ امریکی مفکر اور ماہر لسانیات پروفیسر بیری سینڈرز (Barry Sanders) لکھتا ہے :”ہر عظیم تہذیب کی بنیاد ایک کتاب ہوتی ہے۔ زبانی مقدس روایات کو یہی کتاب قلمبند کر تی ہے اور یہی علمی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہے۔“[14]

 

علمی تہذیب معاشرے میں کتب بینی سے ہی پنپتی ہےکیونکہ کتابوں کے مطالعہ سے انسان اپنی کوتاہیوں کو کھوج کر انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان کے شعور میں پختگی پیدا ہوتی ہے، اچھے اور بُرے کی پرکھ اور تنقید کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، کتابوں کے مطالعہ سے انسان میں فنی تخلیق کی استعداد پیدا ہوسکتی ہے اور انسان کائنات اور حیات کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان آفاق وانفس کی نشانیوں کو بہتر طور پر جان سکتا ہے۔ اس سے وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے اور علم کے اظہار کے موٴثر طریقے دریافت کرتا ہے۔ ایک انسان جب کتب خانہ میں داخل ہوتا ہے اور کتابوں سے بھری ہوئی الماریوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے تو دراصل وہ ایسے علم کےشہر میں کھڑا ہوتا ہے جہاں تاریخ کے ہر دور کے عقلاء، علماء، اہل علم اور اہل ادب کی روحیں موجود ہوتی ہیں۔اس شہر میں اس کی ملاقات امام غزالی، امام رازی، افلاطون، ارسطو اور ابن رشد سے لے کر دور جدید کے تمام اہل علم اور اہل قلم سے ہوسکتی ہے۔ کتاب وہ واسطہ ہے جس کے ذریعہ انسان ”حاضرات“کے عمل کے بغیر اسلاف کی روحوں سے مل سکتا ہے۔

 

الہامی نظریہ کتاب

کتاب کی عمومی افادیت انسان کے شعور و ادراک کو جلاء بخشنا ہے۔ اس خصوصیت کے ساتھ اگر الہام و وحی کی صفت شامل ہوجائے تو یہی کتاب انسان کے نصب العین اور زندگی کے رخ کا تعین کرتی ہے۔گویا وحی سے نسبت کتاب کی اہمیت و مقام کو بڑھا دیتی ہے۔ انسانی علوم چاہے کتنی ہی سوچ و بچار سے مرتب کیوں نہ کی گئی ہو اس میں ردوبدل کا امکان ہمیشہ رہتا ہے ۔ان تعلیمات کے دوام کا سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کردہ صحف و کتب میں ہی پنہاں ہے۔چوں کہ ان صحف و کتب کا ماخذ وحی ہےاور جس طرح کوئی لفظ اپنے مختلف معانی میں سے کسی ایک اعلیٰ اور برتر معنی کے لیے خاص ہوجایا کرتاہے، اسی طرح یہ کتاب کا لفظ بھی خاص طور پر کتاب الہیٰ کے لیے بولا جانے لگا۔ چنانچہ یہ استعمال قدیم زمانہ سے معروف ہے۔ یہود انبیاء کے صحیفوں میں سے ہر صحیفہ کو سفر کہتے تھے جس کے معنی کتاب کے ہیں ۔ عیسائی مترجموں نے ان کتابوں کو بائیبل کا نام دیا اس کے معنی بھی یونانی میں کتاب ہی کے ہیں ۔ اسی طرح ان صحیفوں کے لیے Scripture کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی لاطینی میں کتاب کے ہیں ۔ الغرض کتاب کا لفظ کتاب اللہ کے لیے کوئی نیا استعمال نہیں ہے۔[15]

 

کتاب میں محفوظ اخلاقی اقدار اور احکامات کی عملی صورت وہ رہنما ہیں جن کے بغیر کتاب بے جان حروف کا مجموعہ رہ جاتی ہے۔ کتابوں میں تحریر جملوں کو نظریات کی جان ان ہی رہنما سے ملتی ہے۔ کتاب اور رسالت کے تعلق کو تسلیم کئے بغیر صحف ِ سماوی و کتب پر ایمان لاحاصل کوشش ہے۔کتاب اوررسول کا تعلق حقیقتاً ناقابل انقطاع ہے۔ انسان کو ہدایت کےلئے دونوں کی یکساں ضرورت ہے انسان جس فکری وعملی نظام اور جس تہذیب و تمدن کو قائم کرنا چاہتاہے اس کے قیام و استحکام ، اور اس کے دائماً اپنی صحیح شکل میں رہنے کے لئے ناگزیر ہے کہ ہمیشہ رسالت اور کتاب دونوں کے ساتھ اس کا تعلق برقرار رہے۔[16] قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بھی اس امر پر مہر صداقت ثبت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :

 

إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا۔[17]

 

”(اے اہل مکہ) جس طرح ہم نے فرعون کے پاس (موسیٰ کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا تھا (اسی طرح) تمہارے پاس بھی (محمدﷺ)رسول بھیجے ہیں جو تمہارے مقابلے میں گواہ ہوں گے۔

 

سابقہ الہامی کتب کامختصرجائزہ

کتاب اللہ کا نزول تاریخ میں انسانیت و تہذیب کے ارتقاء کے مترادف ہے۔ چونکہ انسان اپنے فہم و ادراک سے بہت سی منازل سےگزر رہا تھا، جو نہ صرف اس کے تمدن بلکہ علم و فن کو بھی نکھار نے کا سبب ہے۔ وہیں اللہ کی شریعت انسانی ذہن اور انسانی معاشرہ کے تدریجی ارتقا کے لحاظ سے درجہ بدرجہ عطا ہوئی ہے۔ جب تک انسان، کامل شریعت اور کامل کتاب کا اہل نہیں ہوا تھا ۔اس وقت تک اس کو کامل شریعت اور کامل کتاب نہیں دی گئی بلکہ اس کے حالات اور اس کی ضروریات کے مطابق کتاب دی گئی،لیکن یہ کتاب اصلاً اس کامل شریعت اور اس کامل کتاب ہی کا ایک حصہ تھی جو اس کے لیے پہلے سے خدا کی اسکیم میں مقرر تھی۔ کیوں کہ انبیائے بنی اسرائیل نے جو تعلیم دی تھی وہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺسے کوئی الگ چیز نہیں، بلکہ اسی تعلیم کا اتنا حصہ تھا جو ان کے دور اور ان کے حالات کے لیے موزوں تھا، اسی طرح تورات اور انجیل قرآن مجید سے کوئی الگ چیز نہیں ہیں بلکہ اسی صحیفہ کامل کے یہ وہ اوراق تھے جو آخری امت سے پہلے کی امتوں کے لیے نازل ہوئے ۔ اس طرح گویا تمام آسمانی کتابیں ایک ہی کتاب الہٰی کے مختلف ابواب کی حیثیت رکھتی ہیں ، اصلاً اور فطرتاً ان میں کامل ہم آہنگی اور ہم رنگی ہے۔ اگر تورات اور انجیل میں ملاوٹ اور تحریف نہ واقع ہوئی ہوتی تو ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں اجمال و تفصیل اور آغاز و تکمیل کے سوا کوئی فرق نظر نہ آتا تاہم آج بھی ایک صاحب ِ نظر آسانی سے یہ اندازہ کر سکتاہے کہ سب صحیفے ایک ہی مشکوٰۃ علم و معرفت کے انوار اور ایک ہی شجرہ طوبیٰ کے برگ و بار ہیں۔[18] اس ہی مناسبت سے ان کتب کا تعارف اور ان کے ارتقاء کا انسانی فکر سے ربط بیان کیا جائے گا۔

 

توریت: توریت موجودہ عہد نامہ قدیم /عہد نامہ عتیق کا ایک حصہ ہے۔ ”مروجہ عہد عتیق میں ۳۹کتابیں شامل ہیں لیکن علمائے یہود نے ان کو ۲۴کتابوں میں شمار کر کے تین سلسلوں میں منسلک کیا ہےجن کی وضاحت ذیل میں بیان کی جارہی ہے:

 

(سلسلہ اول): تورۃ جسے قانون بھی کہتے ہیں۔ اس میں پانچ اسفاریعنی کتابیں شامل ہیں۔تکوین ، خروج، احبار، اعداد، توریت مثنیٰ۔

 

(سلسلہ دوم): نبیم جن میں یوشع ،قضاۃ، سموئیل اول و دوم، ملوک اول ودوم، یشعیاہ، یرمیاہ، حزقیل اور بارہ چھوٹے پیغمبر شامل ہیں۔

 

(سلسلہ سوم): کتیم ان میں زبور، امثال سلیمان، ایوب، دعوت، لوحہ یرمیاہ، واعظ ، اسیز، دانیال،عرزا، نحمیاہ، ایام اول و دوم۔“[19]

 

ان میں سے تورات کی نسبت حضرت موسیٰ ؑ کی طرف کی جاتی ہے۔جس کے بارے میں یہود کا ایمان ہے کہ طور پر یہواہ نے حضرت موسیٰ کو دو قسم کے قوانین سے نوازا۔ ایک وہ وحی تھی جو پتھر پر لکھ کر عطا ہوئی ، اسے تورۃ شکستب ، یعنی وحی مکتوبی کہتے ہیں ۔ بعد میں ان تختیوں کو حرف بحرف تورۃ میں نقل کر دیا گیا۔ دوسری وحی جو اگرچہ یکساں اہمیت کی حامل تھی لیکن صرف حضرت موسیٰ کے کان میں ڈالی گئی اسے تورۃ شبعلفہ یعنی وحی لسانی کا نام دیا گیا۔ یہ قوانین ،مکتوبی قوانین کی خصوصی وضاحت کے لئے تھے کہ یہواہ نے وحی شکستب پر عمل پیرا ہونے کے لئے تحریری احکامات نازل نہیں کئے تھے۔یہ کام ربیوں کا تھا کہ تورہ کے احکامات کی وضاحت کریں اور ان تصریحی قوانین کو بھی مرتب کریں۔[20]

 

جہاں تک تعلق تورات کا ہے توپانچ کتب کے مجموعے کو توریت کہا جاتاہے ، اس کے لئے ”اسفار خمسہ“کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہودی نوشتوں میں ان کتب کو مجموعی طور پر شریعت یا توریت کہا جاتاہے۔ عبرانی لفظ ”توراہ“(Torah) کا مطلب ہے ”رہنما“یا ”ہدایت“۔[21]

 

توریت الہامی کتب میں تاریخی اعتبار سے نازل ہونے والی اول کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں اس کا اپنا انداز تحریر و دعوت ہے وہیں اس کے مضامین میں بھی خاص قسم کا ربط ہےجسے Williamاپنے ایک مقالے میں یوں تحریر کرتے ہیں:

 

It is composed of units of various forms: genealogies, universal narratives, family narratives, blessings, oracles, statutes, case laws, building reports, etc. Beyond the formal differences, there are also significant differences in content: the text moves from the creation of the world to the patriarchs to the exodus, camps out on Mt. Sinai, continuing on to the wilderness wanderings and closing with a series of admonitions by one important national leader on the plains of Moab. Furthermore, even within individual narrative units, there often exist textual peculiarities that strike the modern reader as disjointed or even secondary. Such ‘‘irregularities” have resulted in complex reconstructions of various stages of compositional activity in the production of the Pentateuch as it is now.[22]

 

”یہ بہت سے ترتیبی اکائیوں کا مجموعہ ہے: جنیات، کائناتی بیانات، خاندانی تشریحات، رحمتیں، احکامات، مجسمات، قوانین، تعمیری اسناد وغیرہ۔ اس رسمی اختلاف سے بعید،یہاں پر اسباق میں معنی خیز اختلافات بھی ہیں ۔ تحریر دنیا کی پیدائش سے شروع ہوکر خصوصی واقعہ خروج کی طرف بڑھتے ہوئے، کوہ سینا میں قیام، حیوانی تجربات سے ہوتی اور موآب کے بیابان میں رہنما کے دئیے گئے مشوروں پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ مزید برآں، ہر انفرادی بیانیاں اکائی کے تحت، یہاں اکثر ایسی خصوصی تحریر بھی موجود ہے جس کی جانب قاری غیر مربوط اور ثانوی پہلو کے اعتبار سے متوجہ ہوتاہے۔ یہ”بے ترتیبی “اک بہت ہی پیچید ہ ترکیب کی صورت میں مختلف مراحل کی صورت میں آج اسفار خمسہ کے نمونے میں ڈھل کر ہمارے سامنے ہے۔“

 

اسفار خمسہ کی ترتیب جہاں پانچ کتب کی انفرادی ساخت کو بیان کرتی ہے وہیں مجموعی طور پر ان واقعات و طرز انداز پر مشتمل ہے جو اس دور کی ضرورت و طلب کے مطابق تھیں ۔غرض واقعات، تمثیلات اور احکامات ہی وہ بنیادی صفات ہے جو اس دور کے انسانی فہم کے مطابق توریت کی صورت میں نازل کی گئیں۔گویا کہ اس مرحلہ فکر میں مصری علوم و فنون میں ”سحر “جو ایک مستقل علم و فن کی حیثیت حا صل تھی اور اسی بنا پر ساحرین کا رتبہ مصریوں میں بہت بڑا سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ ان کو شاہی دربار میں بھی بڑا رسوخ حاصل تھا اور جنگ و صلح و پیدائش و وفات کی زائچہ کشی اور اہم سرکاری معاملات میں بھی انہیں کی جانب رجوع کیا جاتا تھا اور ان کے ساحرانہ نتائج کو بڑی وقعت دی جاتی تھی حتی کہ مذہبی معاملات میں بھی ان کو اہم جگہ دی جاتی تھی ۔وہ جادو پر مذہبی حیثیت سے اعتقاد رکھتے اور اس کو اپنی مذہبی زندگی میں اثر اندا ز یقین کرتے تھے اور اسی اعتقاد کے پیش نظر وہ اس کو سیکھتے اور سکھاتے بھی تھے۔[23]

 

توریت کے نزول کے وقت کے انسانی درجہ فکر میں سحر کا غلبہ اس امر کا متقاضی تھا کہ اس کے سامنے اس کے مطابق ہی تعلیمات پیش کی جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو لمحہ بہ لمحہ معجزات سے نوازا گیا تا کہ یہ قوم جو غلامی کے زیر سایہ بزدل بن چکی تھی اللہ کی نشانیوں کو واضح دیکھ کر سمجھ سکے اور اپنی فکر کو اللہ کے تابع کر سکے۔ حضرت عبدالرحمٰن سیوہاروی اس ضمن میں لکھتےہیں:

 

”صدیوں غلامی کی زندگی بسر کرنے اور پست خدمات میں مشغو ل رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ملکات فاضلہ کو گہن لگ گیا تھا اور مصریوں میں رہ کر مظاہر پرستی اور اصنام پرستی نے ان کے عقل اور حواس کو اس درجہ معطل کر دیا تھا کہ وہ قدم قدم پر توحید الہیٰ اور حکام الہی ٰ میں کسی ’’کرشمہ‘‘ کے منتظر رہتے اور اس کے بغیر ان کے دل میں یقین و اذعان کے لیے کوئی جگہ نہ بنتی تھی، پس ان کی ہدایت و رشد کے لیے دو ہی صورتیں ہوسکتی تھیں ایک یہ کہ ان کو فقط افہام و تفہیم کے مختلف طریقوں سے ہی قبول حق پر آمادہ کیا جاتا اورا نبیاء سابقین کی امتوں کی طرح صرف خاص او ر اہم موقعہ ہی پر’’آیۃ اللہ‘‘ (معجزہ) کا مظاہرہ پیش آتا۔ اور دوسری صورت یہ تھی کہ ان کی صدیوں کی تباہ شدہ اس حالت کی اصلاح کے لیے روحانی طاقت کا جلد ازجلد مظاہرہ کیا جائے۔ اور حق و صداقت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ خدائے تعالیٰ کے تکوینی نشانات’’معجزات‘‘ ان کی استعداد قبول و تسلیم کو بار بار تقویت پہنچائیں ۔پس اس قوم کی پس ذہنیت اور تباہ حالی کے پیش نظر مصلحتِ خداوندی نے ان کی اصلاح و تربیت کے لیے یہی دوسری صورت اختیار فرمائی۔[24]

 

یوں انسانی فکر کا یہ لمحہ معجزات و خارق عادت امور کا متقاضی رہا اسی نسبت سے اس عہد میں معجزات موسیٰؑ کثیر تعداد میں ملتے ہیں جنہیں تورات میں محفوظ کیا گیا اور بنی اسرائیل کے لئے راہ ہدایت بنایا گیا۔


زبور: زبور کے لغوی معانی المنجد میں لوئیس المعلوف نے ”فرشتہ،گروہ ، کتاب“کے لکھے ہیں۔[25] جبکہ مولانا راغب اصفہانی نے اس پر مفصل بحث کی ہے۔ آپ زبور کے تین معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

الزبرۃ قطعۃ عظیمۃ من الحدید جمعہ زبر۔۔وقد یقال الزبرۃ من الشعر جمعہ زبر و استعیر للمجزا۔۔۔و کل کتاب غلیظ الکتابۃ یقال لہ زبور وخص الزبور بالکتاب المنزل علی داؤدعلیہ السلام۔[26]

 

”الزبرۃ لوہے کی بڑی سل کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے۔اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتاہے اس کی جمع زبر آتی ہے اور استعارہ کے طور پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہا جاتاہے۔ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہا جاتاہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔“

 

کتاب مقدس کے مجموعے میں شامل کتاب زبور دراصل بائبل کے مرکزی خیال سے ہم آہنگ ہے۔ کیونکہ خدا کی حمد وثنا، خدا کی شکر گزاری ، ایمان، امید ، گناہ پرپشیمانی،خدا کے ساتھ وفاداری ، خدا کی مدد یہ بائبل مقدس کے بڑے بڑے تصورات ہیں۔زبور میں ان سب کے بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس کتاب میں زبور عبادت میں استعمال کے لئے لکھے اور جمع کئے گئے تھے۔ زبور کی کتاب وہ گیتوں کی کتاب یا دعا کی کتاب بن گئی جو پہلے یروشلیم کی ہیکل میں استعمال ہوتی تھی۔[27]

 

زبور، تورات کی طرح صحف یا کتب میں منقسم نہیں ہے ، بلکہ یہ بائبل مقدس میں شامل سب سے لمبی کتاب ہے۔ بائبل سوسائٹی کی شائع کردہ کتاب مقدس میں زبور کا تعارف کچھ یوں لکھا گیا ہے:”بائبل مقدس میں ”زبور “سب سے لمبی کتاب ہے۔ اس میں حمدو ستائش کے گیت ، خدا سے مدد مانگنے کی دعائیں اور خدا پر توکل کے اظہار کی نظمیں شامل ہیں ۔ زبور انسان کے ہر ممکنہ احساس کو ظاہر کرتے ہیں مثلاً خوشی، شک اور یقین ، دکھ درد اور تسلی، امید اور مایوسی، غصہ اور دلجمعی ، جذبہ انتقام اور معاف کرنے پر آمادگی۔ یہ زبور دعا اور ستائش کے نادر نمونے ہیں اور سب کو دعوت دیتے ہیں کہ اپنی زندگیوں کے ایک ایک حصہ میں خدا کو شریک کریں۔“[28]

 

بنی اسرائیل کی رشدو ہدایت کے لئے 'اصل اور اساس؛ توراۃ تھی لیکن حالات و واقعات اور زمانہ کے تغیرات کے پیش نظر حضرت داؤد ؑکو بھی خدا کی جانب سے زبور عطا ہوئی جو توراۃ کے قوانین و اصول کے اندر رہ کر اسرائیلی گروہ کی رشد و ہدایت کے لئے بھیجی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت داؤد ؑنے شریعت وموسوی کو از سر نو زندہ کیا۔ اسرائیلیوں کو راہ ہدایت دکھائی اور نور وحی سے مستفیض ہو کر تشنہ کامان معرفت الہیٰ کو سیراب فرمایا۔ زبور خدا کی حمد کے نغموں سے معمورتھی اورحضرت داؤد ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا لہجہ اور سحر آگیں لحن عطا فرمایا تھا کہ جب زبور کی تلاوت فرماتے تو جن و انس حتی کہ وحوش و طیور تک وجد میں آجاتے ۔[29]

 

مختصر کلام یہ کہ زبور کے نزول کا عہد وہ عہد ہے جس میں بنی اسرائیل بنیادی احکامات و عقائد کو بخوبی سمجھ چکی تھی اب ضرورت تھی تو اس سلیقہ التجا و روحانی لگاؤ کی جو ان احکامات کے بعد کی منزل ہے ، اسی لئے زبور میں شامل نظمیہ طرز انسان کی فطری چاہت کے غماز ہیں کیونکہ یہی اندا ز انہیں اپنی طرف مائل کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے قرب کے حصول کا اہم ذریعہ بھی یہی تھا۔

 

انجیل: انجیل حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہونے والی سلسلہ بنی اسرائیل کی آخری الہامی کتاب ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ایک حقیقت ہے کہ انجیل کا نزول قانون تورات کی تکمیل ہی کی شکل میں ہوا ہے یعنی نزول تورات کے بعد یہود نے جو قسم قسم کی گمراہیاں دین حق میں پیدا کرلی تھیں ۔انجیل نے تورات کی شارح بن کر بنی اسرائیل کو ا ن گمراہیوں سے بچنے کی دعوت دی ،اور اس طرح تکمیل تورات کا فرض انجام دیا اور بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ؑ کا فراموش شدہ پیغام ہدایت عیسیٰ ؑ ہی نے دوبارہ یاد دلایا، اور تازہ باران رحمت کے ذریعہ اس خشک کھیتی کو دوبارہ زندگی بخشی۔مزید برآں یہ کہ عیسیٰ ؑ سرور کائنات محمد ﷺکے سب سے بڑے مناد اور مبشر ہیں اور ہر دو مقدس پیغمبروں کے درمیان ماضی اور مستقبل دونوں زمانوں میں خاص رابطہ اور علاقہ پایا جاتا ہے۔[30]

 

انجیل جہاں اصطلاح میں کلام الہیٰ ہے وہیں اس لفظ کے اپنے معنی اس میں شامل مضامین و مقصود کو بھی واضح کرتے ہیں۔لفظ ’’انجیل‘‘ کا مطلب ہے خوشخبری ۔یہ لفظ یونانی زبان میں’’یوانجیلیان‘‘(Euangelion)ہے جوعربی زبان سے اردو میں آیا۔[31] تاج العروس میں عربی میں انجیل کے معنی کے ضمن میں اگرانجیل بفتح الف ہو تو علامہ زبیدی لکھتے ہیں:

 

الانجیل کل کتاب مکتوب وافرالسطور، وھو افعیل من النجل۔[32]

 

’’اَنجیل ، اَفعیل کے وزن پر ہے اور انجیل اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں بہت سی سطریں ہوں۔“

 

روانی انداز میں ایسا بیانیہ طرز جو تاریخی واقعات کو تسلسل سے بیان کرتا چلا جاتاہے۔لوئس نئے عہد نامہ کے انداز خطاب پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:

 

The Gospels have a literary character all their own; they are sui generis. There is not another book or group of books in the Bible to which they can be compared. They are four and yet one in a very essential sense; they express four sides of the one

 

εὐαγγέλιον of Jesus Christ. We refer to the conviction that the writers of the Gospels were minded to prepare for following generations more or less complete histories of the life of Christ. In reading these writings we soon find that, looked at as histories, they leave a great deal to be desired.[33]

 

”اناجیل کے اپنے ادبی کردار ہیں جو کہ sui generisہیں ۔کتاب مقدس میں اناجیل کا کوئی ثانی نہیں ۔ یہ چار کتب ہیں مگر اساسی طور پر ایک ہیں:یہ حضرت مسیح کے چار پہلوؤں کو واضح کرتی ہیں ۔ ہم حوالہ دیتے ہیں مصنفین اناجیل کا، ان کا نظریہ دراصل آنے والی نسل کو کم سے کم مسیح کی زندگی سے آشنا کر وانا تھا۔ ان تحاریر کو پڑھنے سے ، تاریخی تناظر میں ، ان کا کام قابل ستائش ہے۔“

 

بیانیہ طرز خطاب چاروں اناجیل میں مشترک اور حاوی انداز خطاب ہے، جو ادب میں نثر سے تعلق رکھتا ہے۔اورچوں کہ نثر ایک اصطلاح ہے جو بیانیہ اور صراحتی ادب کی بہت سی ہئیتوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔لوگوں کے بارے میں تواریخی واقعات بیان کرنے کے لئے عموماًنثر استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں مکالمہ بھی شامل ہوسکتا ہے۔ بائبل مقدس کا اکثر و بیشتر حصہ نثر میں لکھا گیا ہے۔ بائبل مقدس میں نثر کی عام ہئیت کہانی سنانے کے انداز جیسی ہے۔[34]

 

انجیل میں بیان کردہ انداز و احکامات بنی اسرائیل کی ذہنی و فکری سطح کی عکاس ہے جس میں نثری انداز بیان اور مکالمہ شامل ہے۔مکالمے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نہ صرف کلام کا انداز سکھاتے ہیں بلکہ اس میں پنہاں تعلیمات کی طرف انسان کو راغب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے آخری عہد میں اسی صنف کے ذریعے انہیں احکامات سمجھائے گئے ، اسی طرح جب ان تینوں کتب سابقہ پر اجمالی نظر ڈالے تو ہمیں ان میں ربط و تسلسل کے ساتھ ہی انسانی فکر کے ارتقاء کا احساس بخوبی ہوتا ہے ۔ جہاں انسانی فکر کے مطابق تعلیمات کا نزول ہوا وہیں ان الہامی تعلیمات کے ذریعے انسانی فکر کو جلاء بخشی گئی اور ہر آنے والی کتاب نے اپنے سے آئندہ کتاب کے لئے انسانی فکر کو تیار کیا ہے ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی اسی ضمن میں رقم طراز ہیں :

 

”جب یہودیوں کو ڈسپلن کرنا مقصود تھا جو کہ سخت سرکش قوم تھی ، تو ان کو اسی قسم کے احکام دیئے گئے جن کا مجموعہ توریت ہے۔ یہودیوں نے جب کئی ہزار سال کے انحراف کے بعد ایک ایسا انداز اپنایا جس میں قانون و شریعت کے ظاہری پہلو پر تو بہت زور تھا لیکن اس کی روح پر زور نہیں تھا۔ وہ احکام شریعت کی ظاہری پابندی تو کرتے تھے، لیکن ان احکام کی اصل روح اور ان کا اصل مقصد فوت کر دیتے تھے۔ ا س کے مقابلے میں عیسائیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ تعلیم دی کہ قانون کے ظاہری الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کی روح پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔عیسائیوں نے روح شریعت پر اتنا زور دیا اور عمومیات پر اتنا زیادہ عمل کرنا شروع کیا کہ پہلے شریعت کے ظاہری اور جزوی احکام کو چھوڑا اور بالآخر ساری شریعت ہی منسوخ کردی اور اپنی دانست میں صرف شریعت کے باطن پر عمل کرنے لگے۔اس دوران میں ایک مرحلہ ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کرام مناجاتیں لے کر آئے۔ جیسے حضرت داؤد علیہ السلام جب دنیا میں مادیت کا غلبہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کمزور ہو گیا تو اس کو دوبارہ استوار کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی۔ اس موقع پرمناجاتیں نازل کی گئیں تاکہ وہ کمزور پڑتا ہوا تعلق دوبارہ مستحکم ہو سکے۔“[35]

 

قرآن حکیم: غرض کتاب الہیٰ کی آخری کڑی قرآن حکیم بھی الکتاب ہے۔ قرآن حکیم کا نزول الہامی کتب کی تاریخ میں آخری کڑی کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا انداز فکر تمام کتب کا جامع و بلیغ طرز ہے یعنی قرآنی طرز بیان میں نہ تو شاعری کی سی محض معنویت ہے نہ نثر کی سی کرخت منطق،اس میں مخاطب کے افکار و ماحول کے مطابق وہ جادوبیانی ہے کہ دل و دماغ دونوں کو محسور کرلیتی ہے۔یہی اس کے الہامی ہونے کا ثبوت ہے اس طرز بیان نے دنیائے ادب میں انقلاب پیدا کردیا۔یعنی نثر کونظم اور نظم کو نثر کے پیرایہ میں لا کر دونوں میں جوش حیات بھر دیا اور عقل و ہوش کی تیرگی کو محبت و شوق کی تابانی سے پر نور کر دیا۔[36]

 

انسان کی فکر جب ان جامع و اجمالی قوانین کو سمجھنے اور ترجمانی کرنے کے قابل ہوگئی تب اس تک مفصل و اصولی ضوابط کو پہنچا دیا گیا ورنہ اس کے لئے اس نشوونما کے بغیر کلام پاک کو سنبھالنا ناممکن ہو جا تا۔ نتیجتاً قرآن حکیم ایسا کلام ہے جواپنے مطالب سمجھانے کے لئے کسی خارجی سہاروں کا محتاج نہیں ۔ قرآن حکیم میں کچھ احکام ہیں اوراس کے علاوہ زندگی کے باقی گوشوں کے لئے ابدی اصول دئے گئے ہیں۔ تاکہ ہر زمانے میں امت اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ان اصولوں کی روشنی میں اور ان کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئےاپنے لئے جزئی قوانین خود وضع کرے ۔قرآنی اصول ہمیشہ کے لئے غیر متبدل رہیں گے لیکن ان کی روشنی میں انسانوں کے مرتب کردہ قوانین میں عند الضرورت تبدیلی ہوتی رہے گی۔

 

قرآن حکیم کا یہ اصولی انداز ہونے کے باوجود اس میں تاثیر انسانی دلوں کو موہ لینے والی ہے، انسان کی فکر کی نشوونما کے ساتھ اس کی فطرت کو مخاطب کیا گیا ہے ، اس کے باطن کے تاروں کو چھیڑا گیا ہے تا کہ وہ اس کی ذات میں سرائیت کر کے کامل نمونہ بن سکے ۔ سید قطب شہید قرآن حکیم کے انداز کے بارے میں اسی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

جاءتکم الموعظۃ ”من ربکم“فلیس ھو کتابا مفتری ولیس ما فیہ من عند بشر جاءتکم الوعظۃ لتحی قلوبکم، وتشفی صدروکم من الخرافۃ التی تملؤھا،والشک الذی یسیطر علیہا، والزیغ الذی یمرضہا، والقلق الذی یحیرھا، جاءت لتفیض علیہا البرء والعافیۃ والیقین والاطمئنان والسلام مع الایمان۔ وھی لمن یرزق الایمان ھدی الی الطریق الواصل، ورحمۃ من الضلال و العذاب۔[37]

 

”یہ نصیحت تمہارے دلوں کو زندہ کرنے کے لیے ہے۔تمہارے دلوں کو بیماریوں اور خلجانوں کو رفع کرتی ہے، اور تمہارے دل و دماغ میں جو غلط تصورات جمع ہوچکے ہیں ، ان کو دور کرتی ہے، ان میں جو فکری کجی ہے، اس کو دور کرتی ہے، حیرانی اور پریشانی سے نجات دیتی ہے، صحت ، عافیت اور یقین کی دولت سے دلوں کو بھر دیتی ہے ، ایمانی اور سلامتی کی راہ بتاتی ہے اور جن لوگوں کو ایمان لانا نصیب ہو جائے ان کو ایمان واثق دیتی ہے اور گمراہی اور عذاب سے نجات ہے۔ “

 

قرآن حکیم تاقیامت رہنے والی کتاب ، انسانی فکر کے اعلیٰ معیار تک پہنچنے کے ساتھ اپنی تعلیمات اور انداز میں اسی کے مطابق ہے ۔ قرآن حکیم کااعجاز ہے کہ اب رہتی انسانیت تک رہنمائی کرتا رہے گا اور اس میں انسانی فکر سے بڑھ کر کلام کیا گیا ہے تا کہ انسان اپنی فکر کو چیلنج کرتے ہوئے اسے سمجھتا رہے ، پھر بھی اس کے اسرار و رموز کم نہ ہونگے۔

 

فکر انسانی اور کتب سماویہ

توریت ، زبور ،انجیل اور قرآن حکیم تک کا یہ فکری ارتقاء انسان کے درجہ بدرجہ سمجھنے کے انداز کو واضح کرتاہے، جس میں وحی کے ذریعے کامل ذریعہ علم شامل ہے۔ اس لیے جس طرح وحی کے ذریعے عطا ہونے والا علم انسانی استعداد سے پیدا ہونے والے علوم سے قدرتی طور پر الگ اور برتر ہوتاہے، اسی طرح وحی کے ذریعے پیدا ہونے والی تاریخ کی حرکت نظام ِ اسباب کی منطق کی تابع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے کردار میں سراسر مادی ہوتی ہے، بلکہ یہ کہ اسباب کو اس کے وسیع تر معنوں میں ، ہم جس طرح بھی دیکھیں، اس کی مختلف حیثیتیں اور پرتیں اس تاریخ کی واقعاتی شکل مرتب کرتی ہیں ۔ لیکن معجزے کی طرح وحی ایک خاص تاریخی صورت حال میں اس کی حیثیت محرک ِ غیر متحرک کی ہوتی ہے۔ اس سے ایک پیچیدہ نظام ِ اسباب کا آغاز تو ہوتا ہے لیکن خود وہ ان اسباب کے نظام سے منزہ اور ماورا رہتی ہے۔[38]

 

فکر کی ارتقاء دراصل انسان کی وہ خاص تربیت ہے جو ان کتب سماویہ کے ذریعے قدم بہ قدم ہوتی رہی ہے گویا اللہ تعالیٰ کی شریعت درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہوئی اس نقطہ کمال تک پہنچی ہے جس نقطہ کمال پر وہ قرآن حکیم میں نظر آتی ہے ۔ اس تدریجی ترقی کے لیے جو چیز مقتضی ہوئی ہے وہ انسان کی فطرت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ تدریجی تربیت ہی کی ذریعہ سے اس مقام تک پہنچ سکتا تھا جس مقام پر پہنچ کر وہ خدا کے دین کامل کا اہل بن سکے ۔ اس مقام پر پہنچنے سے پہلے تک اس کو جو دین ملا وہ بنیادی طور پر تھا تو اسلام ہی، لیکن اپنی ظاہری شکل و صورت یا بالفاظ دیگر اپنی شریعت کے اعتبار سے بہت کچھ انہی سانچوں پر ڈھلا ہوا تھا جو سانچے اس عہد کے ذہنی ، عقلی اور اجتماعی و تمدنی تقاضوں سے مناسبت رکھتے تھے۔ تدریجی تربیت کے ذریعہ سے جب اس کی فطرت کے تمام مضمرات واضح ہوگئے اور اس کی عقل بلوغ کو پہنچ گئی ، محسوسات و رسوم کی قیدوں اور قومی و قبائلی تنگیوں سے آزاد ہو کر اس نے سوچنا سمجھنا شروع کیا تب اللہ تعالیٰ نے اس کو اسلام اس شکل و صورت اور اس شریعت کے لباس میں دیا جو ٹھیک ٹھیک اس کی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کوئی چیز نہ اس سے کم ہے نہ اس سے زیادہ۔ یہ ترقی اس امر کی مقتضی ہوئی کہ پچھلی شریعتوں کی بہت سی چیزیں بدلیں اور اسلام میں وہ اپنی ان شکلوں میں نمودار ہوں جو ان کی بالکل معیاری اور فطری شکلیں ہیں ۔[39]

 

جب ہم اس تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں انقلاب یا تبدیلی فکر مذہب کے ہی سایہ میں پروان چڑھی ہیں ورنہ خود انسان کی اپنی فکر آپس میں ٹکرا کر فنا ہوجاتی رہی ہے ۔دوسرا اہم عنصر اس میں جغرافیہ کا ہے ابتدائی کتب کا نزول و خطاب مخصوص حدود اربعہ کے اعتبار سے رہا جب کہ آخری کتاب کے نزول کے ساتھ اب تاقیامت اس حد بندی کو لا محدود کرنا محال تھا اس لئے اسلام کے ساتھ ہی یہ حدود اپنی محدودیت سے بالاتر ہوجاتی ہیں ۔ ابو الکلام آزاد فکرکے اثرانداز ہونے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :”جس قالب میں قومیت کا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے ۔ اس میں دو قوتیں نہایت شدت اور وسعت کے ساتھ عمل کرتی ہیں ۔ آب و ہوا اور مذہب۔ آب و ہوا اور جغرافیہ یعنی حدود طبیعہ اگرچہ قومیت کے تمام اجزاء کو نہایت وسعت کے ساتھ احاطہ کر لیتے ہیں ، لیکن ان کے حلقہ کا اثر میں کوئی دوسری قوم نہیں داخل ہوسکتی۔لیکن مذہب کا حلقہ اثر نہایت وسیع ہوتا ہے اور وہ ایک محدود قطعہ زمین میں اپنا عمل نہیں کرتا بلکہ دنیا کے ہر حصے کو اپنی آغوش میں جگہ دیتا ہے۔ کرہ آب و ہوا کا طوفان خیز تصادم اپنے ساحل پر کسی غیر قوم کو نہیں آنے نہیں دیتا ۔ مگر مذہب کا ابر کرم اپنے سایے میں تمام دنیا کو لے لیتا ہے۔“[40]

 

کتب سماویہ کا نزول دراصل انسانی فکر کے اس تغیر کو ظاہر کرتا ہے جس میں وہ خارجی عناصر کے تحت اچھائی کو بھلا کر برائی کی طرف بڑھ جاتا ہے ۔ اسی لیے یہ فکری ارتقاء دراصل انسان کو راہ ہدایت پر رکھنے کے لئے ہر عہد میں انبیاء و کتب کے ذریعے جاری رہی۔ یوں اگر فطرت سلیم اور طبع مستقیم ہو تو انسان کی ہدایت اور بصیرت کیلئے ایک مرتبہ فکر و ذہن کو حقائق کی جانب متوجہ کر دینا کافی ہے۔ پھر اس کی انسانیت خو د بخود راہ مستقیم پر گامزن ہو جاتی اور منزل مقصود کا پتہ لگا لیتی ہے۔ لیکن اگر خارجی اسباب کی بناء پر فطرت میں کجی اور طبیعت میں زیغ پیدا ہوچکا ہو تو اس کو ہموار کرنے کیلئے اگرچہ باربار خدا کی پکار اس کوبیدار کرتی ہے مگرہرمرتبہ کے بعد اس کی صلاحیتیں و استعدادی قوتیں خفتہ ہوجاتیں بلکہ اور زیادہ غفلت میں سرشار ہوکررہ جاتی ہیں حتیٰ کہ قوت و استعداد باطل ہو جاتی ہے۔[41]

 

اسی مقام پر اس کفر پربضد افراد پر عذاب الہیٰ نازل ہوتا ہے اور اس کی جگہ مومنین کی جماعت لے لیتی ہے ۔انسانی فکر کا یہ چکر ہر عہد میں محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں ہونے والی لمحہ بہ لمحہ نشوونما فکر کے مراحل کو بھی جانا جا سکتا ہے ۔توریت، زبور اور انجیل نے فکر کو مختلف انداز سے آگے بڑھایا ۔ چاہے وہ مرحلہ سحر و جادو کے زور کا ہو یا روحانیت کی مضبوطی کیلئے نظمیہ انداز یا حضرت عیسیٰ ؑ کے ہاتھوں بیماروں کی شفاء کے معجزات ہوں ۔ ہر فکر نے اس مرحلہ میں نشوونما پائی اور اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ۔اس کے علاوہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنی ”دعوت حق کی “بنیاد اس اصل پر قائم کی ہے کہ ملک کو قوم اور نسل و خاندان کے تفرقوں سے بالاتر ہو کر یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ پیغام حق اپنی اساس و بنیا د میں کسی حد بندی اور گروہ بندی کا محتاج نہیں ہے اور نہ وہ کسی فرقہ کی اجارہ داری قبول کرتا ہے۔ البتہ ہر ایک زمانہ کے حالات و کیفیات اور وقتی تقاضوں نیز اقوام و امم کے نشو ارتقاء اور ان کی فکری و عملی صلاحیتوں کے پیش نظر اس میں یہ لچک ضرور ہی ہے اور رہنی چاہئے تھی کہ اساس و بنیاد متاثر ہوئے بغیر اس پیغام حق کی تفصیلات و احکامات جدا جدا ہوں یہاں تک کہ روحانی نشوو ارتقاء اپنے حد کمال کو پہنچ جائے اور انسانی فکرونظر کا شعور کمال عروج حاصل کرلے۔[42]

 

یوں تمام الہامی کتب کی خاتم کتاب جو ۲۳ سالہ عرصہ میں لمحہ بہ لمحہ نازل ہوئی ، اس خصوصیت کی حامل ہے کہ چاہے انسان کے ذہن کے بارے میں بات کرے، یا اس کا موضوع سخن انسان کا قلب ہو، یا وہ انسانی احساسات کے بارے میں بات کرے بلکہ انسان کی شخصیت بحیثیت مجموعی قرآن کا موضوع ہے اور اس کا خطاب نہایت ہی مختصر طریقے سے ہوتاہے۔ وہ جب بھی انسان سے مخاطب ہوتا ہے وہ انسان کے قوائے مدرکہ کو ایک ہی بار جھنجو ڑتا ہے، اور سب کو ایک ہی بار خطاب کرتاہے۔ اس طرح وہ اپنے خطاب سے انسانی دل دماغ پر گہرے نقوش چھوڑتاہے، انسان سوچنے لگتاہے اور وہ بے حد متاثر ہوتا ہے۔ آج تک انسان اس قسم کا اثر آفریں کلام یا کوئی اور ذریعہ ایجاد نہیں کر سکا، جوا نسان پر اس طرح کا گہرا ، ہمہ گیر اور اس طرح کا دقیق اور اس طرح کا واضح اثر چھوڑتاہو۔[43]

 

غرض آج انسان کے فکری عروج میں قرآن حکیم کا اسلوب اس کی تمام تر فطری، ذہنی و قلبی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، اسی اسلوب بیان کو مؤثر انداز سے ابوالکلام آزاد یوں بیان کرتے ہیں:”قرآن کا اسلوب بیان یہ نہیں ہے کہ نظری مقدمات اور ذہنی مسلمات کی شکلیں ترتیب دےاور پھر اس پربحث و تقریر کرکے مخاطب کوردوتسلیم پرمجبور کرے۔اس کا تمام تر خطاب انسان کے فطری وجدان و ذوق سے ہوتاہے۔وہ کہتاہے:خداپرستی کاجذبہ انسانی فطرت کا خمیر ہے۔اگر ایک انسان اس سے انکار کرنے لگتاہے تویہ اس کی غفلت ہےاور ضروری ہے کہ اسے غفلت سے چونکا دینے کے لئے دلیلیں پیش کی جائیں۔لیکن یہ دلیل ایسی ہونی چاہیےجو محض ذہن و دماغ میں کاوش پیدا کردےبلکہ ایسی ہونی چاہیےجو اس کے نہاں خانہ دل میں دستک دے اور اس کا فطری وجدان بیدار کردے۔ اگر اس کا وجدان بیدار ہوگیاتو پھر اثبات مدعاکیلئے بحث و تقریر کی ضرورت نہ ہوگی ،خود اس کا وجدان ہی اسے مدعا تک پہنچادے گا۔“[44]

 

انسان کی فکر ہویا فطرت ہر اعتبار سے قرآن حکیم نے اس کی تکمیل کی ہے، انسان کو سمجھانے کے لئے اس کی فکر کو نمو بھی بخشا ہے ۔اور اس کے معیار کے بلند ہونے کے ساتھ اپنے معیارات کو بھی اعلیٰ و ارفع کر دیا ہے ۔ یہی وہ فکری و تاریخی ارتقاء ہے جو انسان کی تخلیق سے اب تک جاری و ساری ہے ۔

 

حاصل بحث

انسانی زندگی جہاں آغاز سے حیاتیاتی ارتقاء سے گزرتی رہی ہے وہیں اس کی فکر بھی نشوونما کے خصوصی مراحل سے گزرتے ہوئےعہد حاضر میں موجود ہے۔ اس فکری ارتقاء کی ایک کڑی الہامی کتب کا نزول ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی بنیادی روحانی تسکین کے لئے تعلیمات کا اہتمام فرماتے ہوئے انسان کی فکری صلاحیت کے مطابق وقتاً فوقتاً نازل فرمایا ہے۔ جب اسے احکامات و بیانیہ طرز کی سمجھ تھی تو توریت عطا کی گئی ، جب اس نے روح کے ان اسرار کو پا لیا جس سے وہ اگلے مرحلے میں پہنچ گیا تو اسے طریقہ استعجاب و دعا ،زبور کی صورت میں دے دیا گیا ۔ اب چونکہ وہ روحانیت کے اس درجے پر پہنچ چکا تھا جہاں اس کے لئے مزید عاجزی درکار تھی تو اسے انجیل سے نواز دیا گیا۔ ان تینوں اہم مراحل کو طے کرتے جب وہ تمام دلائل کو سمجھنے کا اہل ہوگیا، اوراپنے فکری عروج کو پہنچ گیا تب اسے قرآن حکیم جیسی اصولی و اجمالی اندا ز فکر لیے کتاب عطا کر دی گئی ۔

 

یہی وہ فکری ارتقاء ہے جو الہامی کتب کو بوقت ضرورت و انسانی فکر کے مطابق نازل کیا جاتا رہا ہے۔تاکہ انسان کے لیے ان تعلیمات و احکامات کا سمجھنا آسان رہے اور انسان زمانے میں پیش آمدہ فکری تبدیلیوں کا دلیل کی قوت سے مقابلہ کر سکے۔کیونکہ دلیل ہی وہ قوت ہے جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز رکھتا ہے اور ساتھ ہی انسانی فکر وشعور کے ارتقاء کااہم ذریعہ بھی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کتب سماویہ کے انسانی فکر پر اثر انداز ہونے والے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی فکر کو اسی ترتیب سے ارتقاء کی جانب گامزن کیا جائے جس طرح کہ خالق کائنات نے کتب کے ترتیب نزول میں انسانی فکر کا خیال رکھا ہے ۔

 

حوالہ جات

  1. == اصفہانی ،امام راغب ، حسین بن محمد (۵۰۲ھ)، مفردات فی غریب القرآن، کراچی،اصبح المطابع ، کارخانہ تجارت کتب، ۱۹۶۱ء، ص۔ ۲۷۶
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، لاہور، دانش گاہ پنجاب، ۱۹۷۳ء ،ج۔ ۱۲، ص۔ ۷۶
  3. سراج منیر، ملت اسلامیہ تہذیب وتقدیر، لاہور، ادراہ ثقافت اسلامیہ ، ۱۹۸۷ء، ص ۔۲۰تا۲۱
  4. اصلاحی، امین احسن ( ۱۹۹۷ء)، تدبر قرآن، لاہور، فاران فاؤنڈیشن ، ۲۰۰۹ء ،ج۔ ۸،ص۔ ۷۶
  5. آلوسی ،سیدمحمود بن عبداللہ (۱۲۷۰ھ)، روح المعانی، ملتان ،مکتبہ امدادیہ ، س۔ن، ج۔ ۳۰، ص۔ ۱۲۶
  6. اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، محولہ بالا،ج۔ ۱۲، ص۔۷۷
  7. آزاد، محمد، ابو الکلام ، قرآن کا قانون عروج و زوال، مکتبہ جمال ،لاہور، ۲۰۰۷ء،ص ۲۳
  8. لویس المعلوف(۱۳۴۵ھ)، المنجد، کراچی، دارالاشاعت ، ۱۹۶۰ء، ص۔ ۱۰۶۹
  9. ایضا ً،ص۔۱۰۷۰
  10. ظفر عمرزبیری ، پروفیسر ،قدیم تہذیبیں اور مذاہب، لاہور، دارالشعور ، ۲۰۰۵ء، ص۔۵۸تا۶۶
  11. اردو دائرہ معارف اسلامیہ،محولہ بالا، ج۔ ۱۷، ص۔ ۹۵تا۹۴
  12. ایضاً ج۔ ۱۷، ص۔۹۶
  13. عبدالرحمن کیلانی(۱۹۹۵ء)، مترادفات القرآن، لاہور،مکتبہ السلام ،۲۰۰۹ء، ص۔ ۶۹۸
  14. گوہر مشتاق،ڈاکٹر ، قرآن میں تدبر، ص ۳۶۶، مشمولہ تعمیر افکار، قرآن کریم نمبر، کراچی، مسلسل شمارہ ۱۰۰، جلد ۱۱، شمارہ ۷،۶،۵،مئی ، جون ، جولائی، ۲۰۱۰ء
  15. تدبر قرآن، ج۔۱،ص۔ ۸۶
  16. ایضاً، ص۔ ۲۲۲
  17. القرآن: ۱۵،۷۳
  18. تدبر قرآن،محولہ بالا،ج۔ ۲، ص۔ ۶۰
  19. سید نواب علی ، پروفیسر، آسمانی صحائف، کراچی،سٹی بک پوائنٹ ، ۲۰۰۶ء، ص۔۸
  20. یوسف ظفر، یہودیت، لاہور،انتخاب جدید پریس، ۲۰۰۴ء، ص۔ ۶۷
  21. کتاب مقدس، لاہور،بائبل سوسائٹی، ۲۰۱۰ء، ص۔ ۲۵
  22. Joshua E. Williams, “ The Message of the Pentateuch”, Southwestern Journal of Theology, Volume 52, Number 1, (Fall 2009): 02
  23. سیوہاروی، مولاناحفظ الرحمٰن، قصص القرآن، دہلی، جید برقی پریس ، ۱۹۴۳ء، ج۲، ص۴۰
  24. ایضا، ج۲، ص ۴۱-۴۲
  25. المنجد، ص ۔۵۰۰
  26. المفردات فی غریب القرآن، ص۔ ۲۱۰
  27. کتاب مقدس، ص۔۹۷۴
  28. ایضاً
  29. سیوہاروی، مولاناحفظ الرحمٰن، قصص القرآن، محولہ بالا ،ج۔۱-۲، ص ۴۷۴-۴۷۵
  30. ایضا ،ج۔۴، ص۔ ۳۰۰
  31. کتاب مقدس، ص ۔۱۷۳۳
  32. الزبیدی ،محمد مرتضیٰ الحسینی ، تاج العروس من جواہر القاموس،مادہ، الانجیل، کراچی، مکتبہ احدیہ مشن روڈ ، س-ن ، ج۔۸، ص۔ ۱۳۸
  33. Louis Berkhof, Introduction to the New Testament, ( Grand Rapids: MI: Christian Classics Ethereal Library, 1915),16-17
  34. کتاب مقدس، ص۔ ۱۵
  35. غازی،ڈاکٹر محمود احمد، محاضرات قرآنی، لاہور، الفیصل ناشران، ۲۰۰۹ء ،ص۔ ۸۱
  36. محمد اجمل خان، سیدنا رسول عربی ﷺ، لاہور،مکتبہ بیت الحکمت ارد و بازار ، ۱۹۵۶ء، ص۔ ۷۸
  37. سید قطب شہید، فی ظلال القرآن، مصر،مطبع البابی الحلبی، س،ن، ج۔۱۱، ص۔ ۸۹
  38. ملت اسلامیہ تہذیب وتقدیر، ص۔۲۸
  39. تدبر قرآن،محولہ بالا، ج۱، ص ۳۰۹
  40. آزاد، ابو الکلام ، قرآن کا قانون عروج و زوال، ص ۲۲-۲۲، محولہ بالا
  41. سیوہاروی، مولاناحفظ الرحمٰن، قصص القرآن، محولہ بالا ، ۲۰۰۲ء، ج ۲، ص۴۴۷
  42. ایضا ، ج ۲، ص۵۹۴
  43. سید قطب شہید ،تفسیر فی ظلال القرآن،مترجم سید شاہ معروف شیرازی ، دہلی ،ہندوستان پبلیکیشنز ، ۱۹۸۹ء، ج۔۳،ص۔ ۷۹۷
  44. آزاد، ابوالکلام، ترجمان القرآن،لاہور، اسلامی اکادمی،س۔ن، ج۔ ۱، ص۔ ۸۷
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...