Playstore.png

آیات مجیئت و رحمت کی تشریح میں امام الدلجی کے فنون علمیہ کا جائزہ: مخطوطہ الاصطفاء لبیان معانی الشفاء کی روشنی میں

From Religion
Jump to navigation Jump to search

Warning: Page language "ur" overrides earlier page language "".

کتابیات
مجلہ الایضاح
عنوان آیات مجیئت و رحمت کی تشریح میں امام الدلجی کے فنون علمیہ کا جائزہ: مخطوطہ الاصطفاء لبیان معانی الشفاء کی روشنی میں
انگریزی عنوان
An Overview of the Cognitive Contents of Imām Al-Daljī’s Al-ʼiṣtifāʼ Li Bayān Maʽānī Al-Shifāʼ (Manuscript) in the Interpretation of the Qurʼānic Verses on the Advent of the Prophet and His Mercy
مصنف اقبال، وحید، مرسل فرمان
جلد 37
شمارہ 2
سال 2019
صفحات 136-152
مکمل مقالہ Crystal Clear mimetype pdf.png
یو آر آیل
کلیدی الفاظ
Seerah Studies, Imām Al-Daljī, Al-ʼiṣtifāʼ Li Bayān Maʽānī Al-Shifāʼ
شکاگو 16 اقبال، وحید، مرسل فرمان۔ "آیات مجیئت و رحمت کی تشریح میں امام الدلجی کے فنون علمیہ کا جائزہ: مخطوطہ الاصطفاء لبیان معانی الشفاء کی روشنی میں۔" الایضاح 37, شمارہ۔ 2 (2019)۔
مصادر قانون بطور سند اسلامی اور مغربی اصول قانون كا تحقیقی اور تقابلی جائزہ
امام خطابی کی غریب الحدیث تعارف، منہج واسلوب اور امتیازی خصوصیات
تعلیل احادیث صحیحین:امام ابو حاتم وأبو زرعہ كی آراء كا تنقیدی جائزہ
خاندانی نظام کے استحکام میں رزق حلال کا کردار
اردو میں عربی الفاظ کا املا: اختلافی مباحث کا تجزیاتی مطالعہ
تحریک قیام پاکستان: سید ابو الاعلی مودودی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلت
آیات مجیئت و رحمت کی تشریح میں امام الدلجی کے فنون علمیہ کا جائزہ: مخطوطہ الاصطفاء لبیان معانی الشفاء کی روشنی میں
الأسس والقرائن المنهجية الحديثية لتحقق العلم بالخبر:دراسة استقرائية في مصادر المصطلح وأقوال النقّاد
نظام التعليم المسجدي في الصين
أثر السياق في الجمع بين الروايات الحديثية للموضوع الواحد
أساليب المجاز الاستعاري في سورة الأنفال وتوبة ويونس
نظرات في تعامل الإمام الطبراني مع التفرد في الحديث من خلال كتابه المعجم الأوسط
المصادر في القراءات القرآنية بين النصب والرفع
Incongruity in Contemporary and Shariah Compliant Current Accounts and Ijarah Operated by Islamic Banking
Honour Killing in the Light of Islamic Law and Prevailed Customs in Pakistan
Islamic Perspective on Social Welfare

Abstract:

Communication development has made the world a global village. The modern and art education is lasting in this era. Due to this interacting atmosphere of epistemic collaboration takes place. Hence, only international seminars and interfaith dialogues are considered to be the meaningful. Quran as the root source of seerah explained by various interpreters according to their knowledge taste. Imam addalji (died& nbsp; 947 A. H) also interpreted verses of seerah& nbsp; & nbsp; as well as “al-Shifa̅” text in his famous manuscript (“al-Istif a̅’ libaya̅n Ma ̒ a̅ni̅ al-Shifa̅”) in pure cognitive contents. The following research paper reviews the discussions of cognitive contents described under the interpretation of ayat al majeah and rahmat in his Manuscript. The main objective is to focus the reality that Quran is not against the art education in Fact Quran in itself has a very deep educational and artistic values. They can please the research keenness of& nbsp; human intellectual capacity in best way.

تمہید:

دورِ حاضر میں ذرائع ابلاغ کی ترقی نے دنیا کو (global village)بنا کر رکھ دیا ہے۔جسکی وجہ سے آئے دن دنیا بھر کے ادیان(سماوی وغیر سماوی) اور مختلف نظریات کے حامل افراد سے پالا پڑتا رہتا ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ عہد جدید میں علمی مواد اور فنون پرستی کا چلن ہے ۔اس لئے قومی اور بین الاقوامی نہج پر علمی مواد اور فنون کی بنیاد پر کئے جانے والے سیمینارز اور کانفرنسز ہی معنی خیز جانے جاتے ہیں۔جسکی بناء پر اشتراکِ علمی کی فضا قائم ہوتی ہے۔

دوسری جانب سیرت نگاری دین اسلام کا اہم علمی میدان ہے۔جسکی زمانہ تدوین سے آج تک روایت و درایت کی بنیاد پر مختلف طرز کی کتابیں منظر عام پرآرہی ہیں۔بعض ان میں سے مطبوع ہیں۔جبکہ تا ہنوز غیر مطبوع (مخطوط) علمی مواد بھی موجود ہے۔تاہم امام الدلجیؒ(متوفی:947ھ) نے اپنے مخطوط "الاصطفاء لبیانِ معانی الشفاء" میں بڑی عرق ریزی سے علمی و فنی انداز اپنایا ہے۔چنانچہ انہوں نے تفنن علمی کی بنیاد پر فنی طرزمیں مباحثِ سیرت کو اپنے مخطوط میں جگہ جگہ مختلف خوبصورت پیرایوں میں پیش کیا ہے ۔زیرِ نظر کاوش میں بطور نمونہ ان فنون علمیہ کی مباحث کو بیان کیا جاتا ہے۔جو انہوں نے آیات ِمجیئت ورحمت کے ذیل میں بیان کئے ہیں۔

غرض وغایہ اس علمی کاوش سے یہ بات واشگاف کرنا ہےکہ قرآنی آیات وا حادیث مبارکہ علم و فن کے خلاف نہیں بلکہ اپنے اندر گہری علمی و فنی مباحث و مسائل لئے ہوئے ہیں، بلکہ قرآن عظیم الشان ہی ان فنون علمیہ کا اصل منبع و سرچشمہ ہے۔ اگر فنی ذوق و شوق کو سامنے رکھتےہوئے مخطوط کا زبانہائے عالم میں ترجمہ کیا جائے تو آج کے زمانہ میں ہر فن پسند و سیرت پسند فرد کی فنی اور علمی تشنگی دور ہو سکتی ہے ۔اور اس کے لئے امام الدلجیؒ کا مخطوط "الاصطفاء لبیان معانی الشفاء" کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

ابو الفضل، عياض بن موسى بن عياض بن عمرون اليحصبی السبتی کا تعارف:

ماتنِ مخطوط کا نام وپیدائش: ابو الفضل، عياض بن موسى بن عياض بن عمرون اليحصبی السبتی (476 - 544 ھ = 1083 - 1149 م) اُندلس کے ایک شہر سبتہ میں پیدا ہوئے۔[1]

شارحِ مخطوط کا نام وپیدائش :

ابو عبد الله،شمس الدين، محمد الدلجی محمد بن محمد بن محمد بن احمد الدلجی العثمانی، الشافعی (860 - 947 ھ) مصر کے ایک شہر دلجہ میں پیدا ہوئے۔[2]

امام الدلجیؒ سے پہلے اہل سنت والجماعت کے سیرت نگاروں نے جس قدر اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔وہ تمام قرآنی آیات ونصوص اور نقلِ روایات پر مبنی تھا۔ جب کہ تاریخ سیرت نگاراں کا مطالعہ کرنے سے معلوم یوں ہوتا ہے۔ کہ امام الدلجیؒ وہ پہلے سیرت نگار ہیں جنہوں نے علوم عالیہ (قرآن وحدیث)میں فنون آلیہ (صرف،نحو،منطق وغیرہ) کے اطلاقی پہلو کی پیشِ نظر اثرِخامہ ثبت کیا۔نیز قدیم عربی اشعار وکہاوتوں کو بطورِمحل استشہاد لا کر اسکی افادیت کو جلا بخشی،جسکی بنا پر یہ کہنا مبالغہ آمیز تبصرہ نہ ہوگا کہ یہ مخطوط ایک ہمہ جہت اور ہمہ گیر نوعیت کا علمی سرمایہ ہے۔اس میں صرف مباحثِ سیرت ہی کو نہیں بلکہ ہر فن کے مبادیات کے علاوہ دقائق کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔چنانچہ احکامات میں مذاہب فقہیہ اور مختلف فقہاء کے اقوال بیان کرتے ہیں،نیز مذہب ومسلک کے تعصب سے بالا تر ہوکر دلیل ذکر کرتے ہیں۔ بہر حال فنون علمیہ کے طریقہ کار سے قرآنی نصوص واحادیث کی توضیح وتشریح کی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ویسے بھی عصر حاضر علم اور تحقیق و تدقیق دوست ہے۔اس لئے امام الدلجیؒ کا یہ مخطوط دورِ حاضر کی اہم ضرورت پوری کرتا ہے۔

آیت ِمجیئت از ماتن قاضی عیاضؒ:

"اس میں ان آیات کا ذکر ہے کہ جس میں حضور ﷺ کی مدح و ثنا اور خوبیوں کا شمار ہے۔ جیسے خدا تعالی کا یہ قول ہے: (لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ من أنفسكم) الآية. سمرقندی (أبو اللیث) کہتے ہیں کہ بعض (قاریوں) نے (أنفسكم) كو فاء کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ جمہور کی قرات فاء کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ فقیہ قاضی أبو الفضل نے کہا ہے: اللہ تعالی نے مؤمنین، اہل عرب، اہل مکہ یا تمام انسانوں – مع اختلاف المفسرین – کو جتلایا ہے کہ بیشک اس نے ایک ایسے رسول کو مبعوث کیا ہے جو ان ہی میں سے ہے، جسے وہ پہچانتے ہیں، جس کی منزلت ان کے ہاں متحقق ہو چکی اور جس کی صداقت ایک معلوم واقعہ بن چکی۔ پس نہ تو ان کا آپ ﷺ پر جھوٹ کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی قوم کے ساتھ بدخواہی کا کوئی اتہام کیونکہ آپ تو اسی قوم کے ایک فرد ہیں"۔[3]

امام الدلجیؒ مباحث ِفنون علمیہ بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں:

﴿لقد جاءكم رسول﴾[4]اس آیت کریمہ سے ابتداء اس لئےکی کہ یہ آپ ﷺ کی انتہائی تعظیم اور اعلی درجہ کی تکریم پر مشتمل ہے،اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے لئے اپنے اسماء حسنی میں سے دو اسماء جمع کیے ہیں، نیز یہ آیت آپ ﷺ کی اپنی قوم پر مہربانی ورحمت اور ان کے اس حرص کو متضمن ہے کہ یہ سب ایمان لے آئیں، اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہے، اس کی دلیل یہ آیتِ کریمہ ہے﴿لعلك باخع نفسك أن لا يكونوا مؤمنين﴾[5]﴿من أنفسكم﴾ تمہاری جنس اور تمہارے نسب میں سے ، وہ تمہاری طرح عربی اور قریشی ہیں۔﴿عزيز عليه ما عنتم﴾تمہیں ملنے والی ہر تکلیف ومصیبت ،ان کو گراں اور شاق معلوم ہوتی ہے، انہیں ڈر ہے کہ تم عذاب میں پڑ جاؤگے۔﴿حريص عليكم﴾جسے یہ دھن لگی ہوئی ہے کہ تم سب کے سب مسلمان ہوجاؤ۔﴿بالمؤمنين﴾تم میں سے اور تمہارے علاوہ جو ہیں۔﴿رؤف رحيم﴾’’رؤف‘‘ کو مقدم کیا گیا؛ اس لئے کہ یہ ابلغ ہے؛ کیونکہ رأفت، رحمت کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہے۔

اختلاف قراء ومفسرین از ماتن قاضی عیاضؒ:

امام سمر قندیؒ[6] فرماتے ہیں: بعض نے اس لفظ کو یوں پڑھا ہے:﴿مِنْ أنفَسِكم﴾فاء کےفتحہ کے ساتھ یعنی: تم میں سے معززترین اور سب سے پاک طینت لوگوں میں سے ہے۔ یہ قراءت مروی ہے حضرت ابن عباسؓ، حضرت فاطمہؓ،حضرت عائشہ ؓ، امام ضحاکؒ، [7]امام ابو العالیہؒ،[8] اور ابن قسیط ؒ [9]سے۔ اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عباس ؓ سےمروی ہے:کہ آپ ﷺ نے اس کو اسی طرح پڑھا ہے۔ جب کہ جمہور کی قراءت ، فاء کے ضمہ کے ساتھ ہے۔[10] ماتن قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں کہ اس خطاب سے کس کو مخاطب کیا گیا ہے؟ اس امر میں مفسرین کا اختلاف ہے ، کہ اللہ تعالی نے خطاب کیا،تمام مؤمنین کو یا عرب کو یا اہلِ مکہ کو یا سب لوگوں کو، کہ اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا ہے، ان میں ایک رسولﷺ جو انہی میں سے ہے، جسے وہ لوگ پہچانتے ہیں، اس کے حلیہ اور صفات سے جو دونوں کتابوں میں مذکور ہیں۔اور لوگوں کو ان کی بلندی مقام کا پوری طرح یقین ہے، کہ وہ کریم النفس، شریف الحسب ہیں۔ اور ان کا اس رسولﷺ کا انکار وکفر کرنا عناد کی وجہ سے ہے، حالانکہ آپ ﷺ ان کے پاس کھلی نشانیاں اور انتہائی غالب وٹھوس معجزات لے کر آئے تھے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے رسول ہیں۔اور ان لوگوں کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ سچے ہیں۔ کیونکہ ان پر کبھی بھی جھوٹ کا الزام نہیں لگایا گیا۔ اور انہیں معلوم ہے کہ آپ ﷺ امانت دار ہیں کیونکہ بعثت سے پہلے انہیں ’’امین‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔لہذا انہیں ان پر تہمت نہیں لگانی چاہئے۔

امام الدلجیؒ نحویانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ ﴿فَلَا يَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ﴾’’فلا‘‘میں فاء، سببیت کے لئے ہے یا فصیحہ ہے، دونوں صورتوں میں معنی جدا ہوگا چنانچہ معنی فاء سببیت ،بایں سبب کہ آپ ﷺ انہی لوگوں میں سے ہیں اور وہ آپ ﷺ کو اچھی طرح پہچانتے بھی ہیں ۔ جبکہ معنی فاء فصیحہ، جب بات ایسی ہے جیسا کہ ذکر ہوئی تو مناسب ہے کہ یہ لوگ آپ ﷺ پر دعوی رسالت میں جھوٹ کا الزام نہ لگائیں ۔ اور نہ قصور وار ٹھرائیں ان لوگوں کی خیر خواہی چھوڑنے کا ان امور میں جو انہیں دنیا وآخرت میں فائدہ دیتے ہیں۔اس لئے کہ وہ انہی میں سے ہیں۔یہ ان سے تہمت کی نفی کی علت ہے۔امام الدلجیؒ فرماتے ہیں کہ اس میں تعریض ہے بطور ذم وتوبیخ اس شخص کو جو آپ ﷺ کو جانتے ہوئے بھی تکذیب کرتا ہے؛ کیونکہ جس کے صدق وامانت داری کا علم ہونے کے باوجود ان کی تکذیب کی جائے تو وہ بہت قبیح ہوتا ہے، حالانکہ ان لوگوں نے مشاہدہ بھی کیا تھا کہ آپ ﷺ کو دیے گئے تمام معجزات جو کہ انسانی طاقت سے باہر ہیں، تو آپ ﷺ کا ایسے معجزات لانا جن کے لانے سے دوسرے عاجز ہیں، اس میں آپ ﷺ کی تصدیق کرنے پر آمادہ کرنا ہے اور ابھارنا ہے آپ ﷺ کی فوری اتباع پر ؛ کیونکہ ان لوگوں کا آپ ﷺ کے معجزات کی طرح معجزات لانے سے عاجز ہونا ، آپ ﷺ کے صحت ِ دعوی کی سچی دلیل ہے، لیکن حسد اور تکبر وغرور نے انہیں عناد کی وادیوں میں پھینک دیا، جس کی دلیل ابو جہل کا حضرت عباس بن عبد المطلبؓ کو یہ کہنا ہے:اے عبد المطلب کی اولاد! جب تم لوگ نبوت بھی لے گئے، خانہ کعبہ کی خدمت بھی اور حجاج کو پانی وغیرہ پلانے کی خدمت بھی تو باقی قریش والوں کیلئے کیا بچے گا؟[11] امام الدلجی ؒ کے نزدیک ،ماتن قاضی عیاض ؒ کے ظاہر صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطاب کے مخاطب عرب ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب لوگ ہوں۔

امام الدلجی ؒ عموم ثابت کرنے کے لیے منطقیانہ انداز اپناتے ہیں "لأن النوع إلی النوع أميَل"[12] کیونکہ نوع کا نوع کی طرف زیادہ میلان ہوتا ہے، اور وہ جو چیز لاتا ہے تو اس کو جلد قبول کیاجاتا ہے، پس جب وہ ان کے پاس ایسی چیز لائے گا جو انہیں اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز کردے تو وہ جان جائیں گے کہ یہ ایسی چیز ہے جس کے لانے پر کوئی بشر قادر نہیں ہوسکتا ، تو وہ ایمان لے آئیں گے، اور اگر وہ فرشتہ ہو تو انہیں اس کا پتہ نہیں چلے گا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ انہیں یہ خیال آجائے کہ یہ اس کے بس میں ہے۔ اور نہ ہی ان لوگوں میں سے کوئی اس کی تبلیغ سننے پر قادر ہوگا ؛ کیونکہ بشری قوُی ضعیف ہیں، فرشتہ کے سننے کی طاقت نہیں رکھتے، جس کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے:﴿ولو أنزلنا ملكًا لقضی الأمر﴾ [13]یعنی: ان لوگوں کی ہلاکت وبربادی طے تھی؛ کیونکہ محض فرشتہ کو اس کی صورت میں دیکھنے سے ہی ان کی ارواح پرواز کرجاتیں۔ اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ایک شخص نے یومِ بدر میں ایک فرشتہ دیکھا جو اپنے گھوڑے سے کہہ رہا تھا: آگے بڑھو حیزوم!یہ سنتے ہی اس کا جگر پھٹ گیا۔ [14]تو نبی کا انہی میں سے بشر ہونا ان پر نہایت مہربانی ورحمت ہے۔

آیتِ مجیئت کی توضیح اقوال صحابہ سےاز ماتن قاضی عیاض ؒ :

"نیز یہ ہے کہ عربوں میں کوئی قبیلہ ایسا نہیں جس کے ساتھ آپ ﷺ کی کوئی قرابت و رشتہ داری نہ ہو۔ ابن عباس وغیرہ کے نزدیک خدا کے اس قول "إلا المودّة في القربى " کے یہی معنی ہیں۔ فاء کے فتحہ والی قرات کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ان میں سے اشرف، بلند تر اور افضل ہیں اور یہی اعلی درجہ کی تعریف ہے۔ پھر آپ کے اوصاف حمیدہ کے ساتھ تعریف اور بہت سی خوبیاں بیان کی گئیں کہ: آپ لوگوں کی ہدایت و دوستی اور ان کی قبولیت اسلام کے حریص ہیں۔ جو امور انھیں دنیا و آخرت میں تکلیف پہنچائیں وہ آپ پر گراں ہیں۔ آپ مؤمنین پر بڑے ہی مہربان ہیں"۔[15]

امام الدلجیؒ فنون ِعلمیہ کی ابحاث ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

آپ ﷺ عرب میں سے تھے، بلکہ عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہیں تھا مگر یہ کہ اس کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قریبی یا دور کی رشتہ داری تھی۔امام الدلجیؒ نحویانہ انداز اختیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،کہ مستثنی صفت ہے ’’قبیلۃ‘‘ کی، اور اصل تو یہی ہے کہ اس پر واؤ داخل نہ ہوجیسا کہ اس آیت میں ہے: ﴿وما أهلكنا من قرية إلا لها منذرون﴾[16] لیکن چونکہ یہ جملہ صورۃً حال کے مشابہ ہے اس لئے اس پر ’’واؤ‘‘داخل ہوا تا کہ اس کے موصوف کے ساتھ لصوق کو اور مضبوط کردے، جیسا کہ اس آیت میں ہے﴿وما أهلكنا من قرية إلا ولها كتاب معلوم﴾ [17]یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حال ہو ’’قبیلۃ‘‘ سے؛ اس لئے کہ’’ قبیلۃ‘‘ موصوف کے حکم میں ہے، گویا کہ یوں کہا: عرب قبائل میں سے کوئی ایسا قبیلہ نہیں ،جس کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قرابت یا رشتہ داری نہ ہو ،حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک اللہ تعالی کے اس قول :﴿إلا المودّة في القربى﴾[18]کے معنی ہیں، جیسا کہ امام بخاریؒ نے ان سے روایت کیا ہےکہ قریش کی کوئی ایسی شاخ نہیں تھی جس میں رسول اللہ ﷺ کی رشتہ داری نہ ہو، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: مگر یہ کہ تم لوگ میرے اور اپنے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا پاس رکھو۔[19]امام طبرانیؒ نے اسی مضمون کی روایت ان سے نقل کی ہے۔[20] اور مفسرین کی ایک کثیر تعداد اس کی قائل ہے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد ان کی رحمت ومہربانی کو طلب کرنا تھا ؛ تا کہ وہ ان کے شر وایذاء سے بچے رہیں، اور اس سے غرض یہ تھی کہ آپ ﷺ ان کو اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو وہ پیغام پہنچا سکیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے کر بھیجا تھا، امام الدلجیؒ مختصراً ناسخ منسوخ کی بحث کی طرف اشارۃ کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ آیت ﴿إلا المودّة في القربى﴾ منسوخ ہوگئی آیتِ جہاد ناسخ کی وجہ سے ۔

امام الدلجیؒ فنی و علمی توجیہ کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ﴿كَوْنِهِ مِنْ أَشْرَفِهِمْ﴾ دوسری علت ہےجھوٹ وغیرہ کی تہمت کی نفی کے لئے، تو یہ معطوف ہے ’’کونہ منہم‘‘پراور آپﷺ نسب وحسب کے اعتبار سے ان کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں،اور مقام ومرتبہ کے اعتبار میں سے ان کے اعلی ترین لوگوں میں سے ہیں،اور مجد وکرم کے اعتبار سے ان کے بہترین لوگوں میں سے ہیں۔(أنفسکم فتحہ والی قراءت کے مطابق) یہ ’’نفاسۃ‘‘سے ہےبمعنی "أكرمه"۔اور آپ ﷺ اشرف، اکرم اور افضل ہیں ۔

امام الدلجیؒ فر ماتے ہیں کہ(هَذِهِ نِهَايَةُ الْمَدْحِ)’’اسم اشارہ ‘‘ کو مؤنث لایا گیا اپنے مابعد خبر کے اعتبار سے،نیز تحقیق صرفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’حمیدة ‘‘مبالغہ ہے ’’حمد‘‘سے، یعنی: ان کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے۔اس لئے کہ آپﷺ کو اپنی قوم پر شفقت اور رقت قلبی لاحق ہوجاتی تھی ، انہیں اپنی قوم کی ہدایت و رشد پر آنے کی، کامیابی کے راستہ کی طرف بہت کڑھن تھی؛ تا کہ وہ فلاح حاصل کرلیں۔ اور انہیں ان کے اسلام لانے کی شدید خواہش تھی تا کہ وہ اس دین کو مان لیں اور اس کے تابع ہوجائیں جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں ۔ ماتن ؒ فرماتے ہیں کہ بعض علماءنے کہا ہے: اللہ تعالی نے آپ ﷺ کواپنے ناموں میں سے دونام دیئے ہیں: رؤف اور رحیم ۔

امام الدلجیؒ فنی ابحاث کی پیش نظر کہتے ہیں،کہ رؤ ف’’رأفۃ‘‘سے ماخوذ ہے، جو انتہائی رحمت کو کہتے ہیں، اور یہ ’’فعول‘‘ کے وزن پر آیا ہے۔اور رحیم یعنی: مہربان دوست اور بہت زیادہ رحم والا، رحموت اسم مبالغہ ہے ’’رحمۃ‘‘سے۔ عربوں کے ہاں کہاوت ہے: ’’رهبوتٌ خيرٌ مِنْ رحموتٍ‘‘۔[21] تیرے لئے بہتر ہے کہ تجھے ڈرایا جائے اس سے کہ تجھ پر رحم کیا جائے۔

امام الدلجیؒ کا ادبی ذوق اور تشریحِ الفاظ کیلئے تائیدی اشعار :

کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں:[22]

نطيع نبينا ونطيع ربًّا هو الرحمن كان بنا رؤوفًا[23]

ترجمہ:" ہم اپنے نبی ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اس رب کی جو رحمن ہے اور ہم پر انتہائی مہربان۔"

اور ’’فعل‘‘ کے وزن پر بھی آتا ہے، چنانچہ جریر شاعر کہتا ہے:[24]

يرى للمسلمين عليه حقًّا كفعل الوالد الرَّوْفِ الرحيم[25]

ترجمہ:" وہ خود پر مسلمانوں کا حق سمجھتے ہیں اس باپ کے کردار کی طرح جو انتہائی مہربان اور رحم والا ہے۔"

ماتن قاضی عیاض ؒ آیتِ مجیئت کے مضمون پر مشتمل دیگرآیات واقوال ذکر کرتے ہیں:

"بعض علما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے ناموں میں سے دو نام عنایت فرمائے: رؤوف اور رحیم۔ ان کی مثال آیات: (لقد مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ ...)، (هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ ...) اور (كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ...) ہیں۔ علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ سے آیت میں مذکور اللہ تعالی کے قول (من أنفسكم) کے بارے میں روایت کیا ہے کہ: "تمہارے نسب، سسرال اور حسب میں سے بھیجا۔ میرے آباؤ و اجداد میں آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک زنا نہیں ہوا۔ بلکہ سب کے سب نکاح سے پیدا ہوئے"۔[26]

امام الدلجیؒ مذکورہ آیات و اقوال صحابہ کے فنون علمیہ کے نکات بیان کر تے ہیں:

﴿لقد جاءكم رسول من أنفسكم﴾ کی طرح جو مدح وثناء کے سیاق میں وارد ہوئی ہے ،اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: ﴿لقد من الله على المؤمنين﴾[27]اللہ تعالی نے انعام فرمایا ہے ان لوگوں پر جو ان پر ایمان لائے، اور مؤمنین کی تخصیص فرمائی حالانکہ یہ نعمت تو عام ہے ، اس لئے کہ زیادہ فائدہ اس سے مؤمنین کو ہی ہوا ہے۔ ﴿إذ بعث فيهم رسولًا من أنفسهم﴾ انہی کے نسب میں سے۔ تو اس کے نعمت ہونے میں جس کےذریعہ ان پر احسان کیا گیا ہےآپ ﷺ کی اس قدر عظمت شان، بلندی قدر اور علو مقام ہے جس پر مزید اضافہ کی گنجائش نہیں۔اور یہ قول باری تعالی: ﴿هو الذی بعث فی الأميين﴾[28]عرب امیوں میں بھیجا، اگر چہ ان کی بعثت عام ہے؛ اس لئے کہ آپ ﷺ ان میں سے ہیں اور اکثر ان میں سے نہ لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں، جس کا مستدل یہ حدیث ہے:’’إنا أمة أمية لا نحسب ولا نكتب‘‘۔[29]بعض نے کہا ہے: یہ نسبت ہے ’’أم‘‘ کی طرف ہے یا بایں معنی کہ یہ لوگ ایسی حالت میں ہیں جس حالت میں اپنی ماؤں کے پیٹ میں تھے ،یا یہ نسبت ہے ام القری مکہ کی طرف۔ ﴿رسولًا منهم﴾انہی کی طرح امی ﴿يتلوا عليهم آياته﴾ ان کوآیتیں پڑھ کے سناتا ہے،حالانکہ وہ امی ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ ﴿ويزكيهم﴾ انہیں گندے عقائد واعمال سے پاک کرتا ہے ﴿ويعلمهم الكتاب والحكمة ﴾قرآن کریم اور شریعت یا دین کے معالم واصول اورمنقولات ومعقولات کی تعلیم دیتا ہے ۔ ﴿يتلوا عليكم آياتنا ويزكيكم﴾ تم کو ہماری آیتیں پڑھ کے سناتا ہےاور تمھارا تزکیہ نفس کرتا ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب ؓ ﴿من أنفسكم﴾کے بارے میں آپ ﷺسے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا: نسبًا وصهرًا وحسبًا[30]یعنی: عزت ، شرف اور کرم کے اعتبار سے، جو باپ دادا کے مفاخر میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ آدم علیہ السلام سے لے کر میرے آباء واجداد میں کوئی زنا سے نہیں، بلکہ سب نکاح سے ہوئے ہیں،امام الدلجیؒ قول کا مستدل ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابن ابی عمر العدنی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ابن کلبیؒ [31]کہتے ہیں: میں نے نبی ﷺ کی پانچ سو ماؤں کے نام لکھے ہیں، میں نے ان میں کوئی بھی بدکاری نہیں پائی اور نہ ہی ایسی کوئی ایسی چیز پائی جس پر جاہلیت والے قائم تھے ۔

امام الدلجیؒ مزید مدلل و محدثانہ انداز اختیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اس کی دلیل ابن عدی اور طبرانی کہ یہ حدیث ہے: ’’ خرجت من نكاح ولم أخرج من سفاح‘‘[32]۔ اور زبیر بن بکار[33] وغیرہ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ : کنانہ نے اپنے والد خزیمہ کی موت کے بعد ان کی بیوی برۃ بنت ادّ بن طابخہ سے نکاح کیا، جس سے نضر پیدا ہوئے تو یہ روایت مردود ہے اس بات سے جو جاحظ ؒ [34]نے ذکر کی ہےکہ نضر ، برّہ کی اولاد میں سے نہیں ہے، بلکہ اس کی بھتیجی برّۃ بنت مرّۃ بن ادّ سے پیدا ہوا ہے۔ اور اسی وجہ سے لوگوں پر اس کا اشتباہ ہوا۔ امام الدلجیؒ تطبیق بین القولین کی پیش نظر فرماتے ہیں کہ اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو یہ عمل اسلام سے پہلے مباح تھا، اور اس کی دلیل: ﴿إلا ما قد سلف﴾[35]ہے۔

مذکورہ بالا تحقیقات کے بعد امام الدلجیؒ نے ابن کلبیؒ کے قول پر جرح و تعدیل کی بحث کا آغاز کیا ہے:

تاریخ اس بات کے استحالہ کا تقاضہ کرتی ہے کہ آپ ﷺ اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان پانچ سو مائیں ہوں؛ اس لئے کہ بالاجماع آپ ﷺ اور عدنان کے درمیان اکیس آباء ہیں اور ابن اسحاق [36]وغیرہ کے نزدیک عدنان اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان چھبیس آباء ہیں، نظر برآں آپ ﷺ اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان سنتالیس آباء مع سنتالیس امہات ہوں گے۔ ان دونوں اقوال(امام الدلجیؒ ،ابن کلبیؒ) کے درمیان بہت بڑا تفاوت ہے،امام الدلجی ؒ کے نزدیک تطبیق بین القولین یہ ہے کہ آپ ﷺ کی امہات ، ان کے چچوں اور آباء کے چچوں کی امہات کو تاآدم علیہ السلام شمار کیا جائے۔

ماتن قاضی عیاضؒ آیتِ رحمت آپﷺ کی مدح میں ذکر کرتے ہیں:

"اللہ تعالی نے فرمایا: ہم نے آپ کو سب جہانوں کی رحمت ہی کر کے بھیجا۔ ابو بکر محمد بن طاہر کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے محمد کو رحمت کے ساتھ زینت دی۔ سو آپ کا وجود رحمت ہوا۔ آپ کے تمام خصائل و صفات مخلوق پر رحمت ہیں۔ پس جس نے آپ کی رحمت سے کچھ حصہ پا لیا تو وہ دونوں جہان میں سے ہر مکروہ چیز سے نجات پانے والا ہے اور ان دونوں میں ہر محبوب کی طرف پہنچنے والا ہے"۔[37]

امام الدلجیؒ آیتِ رحمت کی مباحث ِ فنیہ بیان کرتے ہیں:

اللہ تعالی نے فرمایا:﴿وما أرسلناك إلا رحمةً للعالمين﴾[38] امام الدلجیؒ فر ماتے ہیں کہ حال (رحمةً) کا محل (ك)پر اطلاق کیا گیا ہے بطور مبالغہ اس امرمیں کہ وہ رحمت والے ہیں جو لوگوں کی سعادت کا سبب ہیں ، ان کے معاش ومعاد کی اصلاح کا، اور کافروں کے لئے خسف، مسخ اور بیخ کنی سے محفوظ ہونے کا سبب ہیں۔اور ’’عالمین‘‘جمع ہے عالَم کی۔ جو اپنے ماتحت مختلف جنسوں کو شامل ہے۔ اور یہ جمع یاء اور نون کے ساتھ لائی گئی ہے عقلاء کو غلبہ دینے کے لئے۔ اور عالَم ، مشتق ہے ’’علم ‘‘ سے، اور یہ اسم ہے ہر اس چیز کا جس کے ذریعہ کوئی چیز جانی جاتی ہے، جیسے ’’خاتم‘‘ اسم ہے اس چیز کا جس کےذریعہ کوئی چیز پوری اور ختم کردی جاتی ہے،پھر اس کا غالب استعمال ہوا ہر اس جنس میں جس کے ذریعہ خالق پہچانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ خالق پر استدلال کیا جاتا ہے؛ کیونکہ عالَم اپنے امکان اور موجِد واجب لذاتہ کی طرف محتاج ہونے کی وجہ سے اس کے وجود پر دلالت کرتا ہے، کہاجاتا ہے: عالم انس، عالم مَلَک، عالم جن۔ اور اسی طرح عالَم حیوان، عالَم افلاک، عالَم نبات، وغیرہ۔ اور بعض نے کہا: عالَم نام ہے علم والوں کا، یعنی: انس،ملائکہ اور جن کا۔اور یہ ما سوی اللہ مجموعے کا نام نہیں ہےاس طور پر کہ اس کے افراد نہ ہوں ، بلکہ اجزاء ہوں، لہذا اس کی جمع ممتنع ہے۔

ابو بکر بن ظاہرؒ [39]فرماتے ہیں کہ﴿ زَيَّنَ اللَّه تَعَالَى مُحَمَّدٌ ﷺ بِزِينَةِ الرَّحْمَةِ﴾اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو رحمت کی زینت سے آراستہ فرمایا ہے)[40]اور انہیں مزین کیا ہے رحمت والی صفات وطبائع اور کریمانہ خصوصیات کے ساتھ، مثلًا: شفقت، رقت قلبی، صلہ رحمی، نادار کی کفالت،محتاج کی مدد، مصائب میں لوگوں کی مدد کرناوغیرہ صفات سےجن کا منشأ رحمت ہےاور یہ عمدہ اور کریمانہ اخلاق کے اصول میں سے ہے۔

امام الدلجیؒ مذکورہ قول میں فنی مباحث کا اطلاق کرتے ہوئے تین احتمالات ذکر کرتے ہیں:

الف: ’’ زِينَةِ الرَّحْمَةِ ‘‘میں تشبیہ مؤکد ہے، اس طور پر کہ مشبہ بہ (زِينَةِ) کو مشبہ(الرَّحْمَةِ )کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ یعنی: اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو رحمت کے ساتھ مزین فرمایا ہے ان آثارِ رحمت کے صدور کی وجہ سے جو آپ ﷺ کیلئےزینت ہیں ، جیسا کہ: ’’لجین الماء‘‘میں مشبہ بہ (لجین)کو مشبہ (الماء) کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔اس شعر میں:

والريحُ تعبَث بالغصون وقد جرى ذَهَبُ الأَصِيْلُ على لُجَيْنِ الماء[41]

ترجمہ:اور تیز ہوا ٹہنیوں کے ساتھ کھیلتی ہیں حالانکہ سونے کے ٹکڑے چاندی کی طرح سفید پانی پر جاری ہیں۔

ب : بطریق استعارہ ہے، اس طور پر کہ رحمت کو آپ ﷺ کی اس کے ساتھ متصف ہونے کی وجہ سے آلۂ زینت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے بطور استعارہ مکنیہ کے، اور اس کے لئے زینت کا اثبات تخییل ہے۔

ج: رحمت کی زینت کو دلہن کی زینت کےساتھ تشبیہ دی گئی ہےجو مختلف انواع زینت کےساتھ مزین ہو۔ پھر اس سے ’’زیّن‘‘فعل کا اشتقاق کیا گیا۔ تو مصدر میں استعارہ اصلیہ ہوا اور فعل میں تبعیہ ہوا۔

﴿فَكَانَ كَوْنُهُ﴾ آپ ﷺ رحمت کےساتھ کا موصوف ہونا ﴿رَحْمَةً﴾رحمت ہونا جس کی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اس کے ساتھ مزین کیا گیا ہے۔﴿وَجَمِيعُ شَمَائِلِهِ﴾اور آپ ﷺ کے تمام شمائل، یہ ’’شمال‘‘ کی جمع ہے خلاف القیاس، یعنی کہ آپﷺ کے اخلاق محمودہ۔ جس کی دلیل جریر کا یہ شعر ہے:

ألم تعلما أن الملامة نفعها قليل وما لومی أخی من شماليا[42]

ترجمہ:" کیا تم دونوں کو علم نہیں، ملامت کا فائدہ تھوڑا ہوتا ہے، اور بھائیوں کو ملامت کرنا میرے اخلاق میں شامل نہیں"۔

تو یہ ملکات ونفسانی کیفیات ہیں، گویا کہ یہ جمع ہے شمالۃ کی ، جیسے جمالۃ اور جمائل ہیں۔ ابو خراش کا شعر ہے:[43]

تَكَادُ يداه تُسْلِمان رِداءَهُ من الجودِ لمَّا استَقْبَلَتْهُ الشمائِلُ[44]

ترجمہ: "قریب ہے کہ (زہیر بن عجوہ )کے ہاتھ اپنی چادر کسی بھی سائل کے حوالہ کردیں سخاوت کی وجہ سے، جب خصال حمیدہ اس کا استقبال کریں۔"

﴿)وَصِفَاتِهِ رَحْمَةً عَلَى الْخَلْقِ﴾(اور ان کی صفات مخلوق پر رحمت ہیں،امام الدلجیؒ عالمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رحمۃ کو ’’علی‘‘کے ساتھ متعدی کرنے میں استعلاء کی طرف اشارہ ہے ، کہ یہ صفت گویا سایہ کی طرح ان سب پر مرتفع اور بلند ہے ۔ ﴿فمن أصابه شئ مَنْ رَحْمَتِهِ﴾ پس جس کو اس محبت میں سے کچھ حصہ مل گیا،اور وہ اس پر سایہ فگن ہوگیا اس طور پر کہ اس نے آپ ﷺ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے آپ ﷺ کی اتباع کی۔﴿فَهُوَ النَّاجِي فِي الدَّارَيْنِ مِنْ كُلَّ مَكْرُوهٍ﴾وہ ابتداءً اور مآلًا دونوں جہان میں ہر مصیبت سے ناجی ہے۔﴿وَالْوَاصِلُ فِيهِمَا إِلَى كُلِّ مَحْبُوبٍ﴾اور اسے ابتداءً اور مآلًا دونوں جہانوں میں ہر محبوب کا وصال نصیب ہوگا۔ اوریہ کلیہ دونوں جہانوں (دنیا و آخرت) میں ان دونوں (اللہ ورسول ﷺ) کے ساتھ مؤول ہے۔

ماتن قاضی عیاض ؒ آیت رحمت کے مضمون پر مشتمل تائیدی روایت ذکر کرتے ہیں:

"پس آپ ﷺ کی زندگی اور موت رحمت ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے اور میری موت بھی تمہارے لئے بہتر ہے۔ اسی طرح یہ بھی ارشاد فرمایا: جب اللہ کسی امت پر مہربانی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے نبی کو ان سے پہلے قبض کر لیتا ہے اور اسے امت کے لئے فرط و سلف (یعنی آگے جانے والا) بناتا ہے"۔[45]

امام الدلجیؒ مذکورہ روایت کی فنی مباحث کا آغاز کرتے ہیں:

حارث ابن ابی اسامہ[46] اور امام بزار [47]نے صحیح سند کےساتھ روایت کیا ہے ﴿حَيَاتِی خَيْرٌ لَكُمْ وَمَوْتِی خَيْرٌ لَكُمْ ﴾میری زندگی لوگوں کے لئے بہتر ہے اور میری رحلت بھی تم لوگوں کے لئے بہتر ہے۔[48]اس کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے:﴿وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم﴾[49]اوراللہ ان کو عذاب نہیں دے گا درآں حالیکہ آپ ان کے درمیان موجود ہوں(زندہ اور میت)۔اور اسی طرح فرمایا امام مسلم ؒ [50]نے روایت کیا ہے۔﴿إِذَا أرَادَ اللَّهُ رَحْمَةً بِأُمَّةٍ قَبَضَ نَبِيَّهَا قَبْلَهَا فَجَعَلَهُ لَهَا فَرَطًا وَسَلَفًا﴾[51]جب اللہ تعالی کسی امت کےساتھ رحمت کا ارادہ کرتےہیں تو اس کے نبی کو اس سے پہلے ہی اٹھالیتے ہیں، اور اسے ان لوگوں کے لئے فرط وسلف بنادیتے ہیں۔یہاں’’فِعَل‘‘بمعنی ’’فاعل‘‘ہےیعنی:نبی کومتقدم اور سابق بناتے ہیں، ان لوگوں کےلئے اجر بنادیتے ہیں جو ان سے پہلے چلا جاتا ہے تا کہ یہ لوگ اس کے پاس آئیں۔ اور اسی کی مثل یہ حدیث ہے: ’’أنا فرطكم على الحوض‘‘۔[52]میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا۔ لیکن ’’فرط‘‘ اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو پانی پینے والوں سےپہلے جاتا ہے تا کہ ان کے لئے ڈول، رسی وغیرہ کا بندوبست کرے اور حوض بھر کر انہیں پانی پلائے۔

ماتن قاضی عیاض ؒ آیت رحمت کے مضمون پر مشتمل تائیدی اقوال ذکر کرتے ہیں:

سمرقندی کہتے ہیں کہ (رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ) سے مراد جن و انس ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام مخلوق کے لئے: مؤمن کے لئے ہدایت کے ساتھ، منافق کے لئے قتل سے امان کے ساتھ اور کافر کے لئے عذاب کی تاخیر کے ساتھ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ مؤمنوں اور کافروں دونوں کے لئے رحمت ہیں کیونکہ آپ ﷺ کے واسطے سے دونوں کو ان عذابوں سے عافیت ملی جو گزشتہ پیغبروں کو جھٹلانے والی امتوں پر آئے۔ کہا گیا ہے کہ جبریل سے پوچھا گیا کہ تم کو بھی اس رحمت سے کچھ حصہ ملا۔ جواب دیا کہ: ہاں، میں اپنے انجام سے ڈرا کرتا تھا۔ لیکن اب میں بے خوف ہو گیا ہوں کیونکہ اللہ نے اپنے اس قول (ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ. مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍیعنی قوت والے صاحبِ عرش کے پاس جو کہ باعزت متبوع ہے وہاں پر امین ہے) سے میری تعریف کی ہے ۔ جعفر بن محمد صادق سے اللہ کے اس قول (فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ) سے مراد یہ ہے کہ: بے شک أصحاب یمین کو ملنے والی سلامتی آپ ﷺ کی مہربانی اور کرم کے باعث ہے۔[53]

امام الدلجیؒ مذکورہ اقوال کی فنی مباحث کا آغاز کرتے ہیں:

امام ِ ہدایت ابو اللیث سمرقندیؒ [54]نے فرمایا ہے ﴿السَّمَرْقَنْدِيُّ﴾ راء کے سکون کےساتھ یہ حنفی ہیں۔ ﴿رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ رحمۃً للعالمین جن و انس کے لئے، بعض نے کہا: تمام مخلوق کے لئے اس طور پر کہ مؤمن کے لئے بوجہ ہدایت رحمت ہے اور منافق کے لئے بوجہ قتل سے مامون ہونے کے رحمت ہے اور کافر کے لئے بوجہ عذاب کو مؤخر کرنے کے رحمت ہےیہاں تک کہ وہ مرجائے۔ ﴿قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا﴾ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں، جسے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفاسیر میں، امام طبرانیؒ [55]نے اور امام بیہقیؒ [56]نے ’’دلائل النبوۃ‘‘میں۔ ﴿هُوَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْكَافِرِينَ، إذْ عُوفُوا مِمَّا أصَابَ غَيْرَهُمْ مِنَ الْأُمَمِ الْمُكَذِّبَةِ﴾آپ ﷺ مؤمنین اور کافروں کے لئے رحمت ہیں؛ اس لئے کہ انہیں عافیت میں رکھا گیا ہے ان عذابوں سے جو ان کے علاوہ دیگر امم مکذبہ پر آئے تھے۔

﴿وَحُكِيَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِجِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ هَلْ أَصَابَكَ مِنْ هَذِهِ الرحمة شيء﴾ اور حکایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے فرمایا: کیا آپ کو اس رحمت کا کچھ حصہ پہنچا ہے؟) امام الدلجیؒ فرماتے ہیں کہ معہود فی الذہن کی طرف اشارہ ہے ؛ اس لئے کہ رحمت ایسے معنی ہیں جسے اللہ تعالی اپنی مخلوق میں، جس کے اندر چاہے پیدا کرتا ہے۔ اور اس میں لوگ متفاوت ہوتے ہیں۔ ﴿قَالَ: نَعَمْ﴾ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا ﴿كُنْتُ أَخْشَى الْعَاقِبَةَ فَأَمِنْتُ لِثَنَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيَّ بِقَوْلِهِ ذِي قُوَّةٍ﴾[57]جی ہاں، مجھے عاقبت کا ڈر تھایعنی: سوء خاتمہ کا ،تو میں محفوظ ہوگیا اللہ تعالی کی میرے حق میں ثناء سے ’’ذی قوۃ‘‘ کہہ کر یعنی: انتہائی زیادہ قوت والا، جیساکہ اس آیت کریمہ میں ہے﴿علّمه شديد القوى﴾[58] ایسا فرشتہ جس کے قوُی انتہائی مضبوط ہیں جو کہ حضرت جبریل علیہ السلام ہیں، مروی ہے کہ انہوں نے قوم لوط کی بستیاں جڑ سے اکھاڑ کر آسمان تک اٹھائیں ، پھر انہیں الٹا کرکے زمین پر پٹخ دیا۔ اور ثمود پر ایک زبردست چیخ ماری تو وہ صبح اوندھے منہ پائے گئے۔[59] ﴿عند ذي العرش مکین﴾[60] اللہ تعالی کے ہاں ان کا بڑا رتبہ ہے﴿مطاع﴾ ان کی بات مانی جاتی ہے ملائکہ میں﴿ثم أمین﴾ امانت دار ہیں وحی پر، امام الدلجیؒ فرماتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ حکایت کس نے روایت کی ہے۔

جعفر بن محمد الصادق کی روایت کی تحلیل:

﴿وَرُوِيَ عَنْ جَعْفَرِ بنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى﴾ اللہ تعالی کے اس قول کے بارے میں جعفر بن محمد الصادق سے روایت ہے﴿فسلام لك من أصحاب اليمين﴾[61]اے محبوب آپ پر سلام ہو داہنی طرف والوں سے ﴿أَيْ بِكَ إِنَّما وَقَعَتْ سَلَامَتُهُمْ مِنْ أَجْلِ كَرَامَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ﴾ اے محمد! تیرے سبب اصحاب الیمین کو سلامتی ملی محمد ﷺ کی تکریم کی خاطر۔ امام الدلجیؒ فن بلاغت کے نکات بیان کرتے ہیں کہ یہاں اسم ظاہر کو ضمیر کی جگہ رکھا گیا، اس صورت میں ’’من‘‘ زائد ہوگا۔

اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ "من" لام تعدیہ کے معنی میں ہو۔تو آیت کامعنی یوں آئیگا یعنی: تیرے سبب اصحاب الیمین کو سلامتی ملی؛ بوجہ تکریم الہی برائے پیغمبر ﷺ ۔اور اس بات میں تکلف بعید ہے۔

امام الدلجی ؒ اپنی رائے پیش کرتے ہیں ﴿معني الاية فسلام لك يا صاحب اليمين من اخوانك اصحاب اليمين اي يقال له سلام لك اي مسلم لك انك منهم﴾ توآیت کامعنی یوں آئیگا:سلام ہو تجھ پر اے صاحب یمین تیرے اصحاب یمین بھائیوں کی طرف سے۔ یعنی: آپ ﷺ کو کہا جائے گا: سلام لک ،اور یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ آپ ﷺ بھی ان میں سے ہیں۔امام الدلجی ؒ اپنی دوسری رائے پیش کرتے ہیں ﴿او يا محمد انك لا تري فيهم الا ما تحب من سلامتهم من العذاب و ان كان منهم من يقول يوم القيامة سلام عليك﴾ توآیت کامعنی یوں آئیگا: اے محمد! تجھے ان لوگوں میں صرف وہی بات نظر آئے گی جو تجھے پسند ہےیعنی: ان کا عذاب سے محفوظ ہونا،اور ان میں سے کچھ آپ ﷺ کو قیامت کے دن کہیں گے: سلام علیک۔

خلاصہ کلام:

علمی و فنی انداز سے نصوص کی توضیح دورِ حاضر میں مزید بڑھ گئی ہے ،دنیا گاؤں کی طرح محدود ہو چکی ہے، اور عام آدمی کو ہر جگہ ہر وقت جدید الیکٹرانک میڈیا میسرہونے کی وجہ سے مختلف نظریات کے حامل افراد کا سامنا رہتا ہے۔جن کیلئےمذہبی مکالمہ دلائل منصوصہ کی حد تک کافی نہیں بلکہ علمی و فنی اورعقلی تحقیق وتدقیق کی ضرورت بھی پڑتی ہے،اس پیش آمدہ امر ِ کو بہت حد تک حل کرنے میں مخطوطہ "الاصطفاء لبیان معانی الشفاء"ممد ثابت ہوسکتا ہے۔

امام الدلجی ؒ کی آیت ِمجیئت و رحمت کے تحت تشریح کا گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیا جائے تو ان دونوں آیتوں میں تقریبًا تمام علومِ عالیہ وفنونِ آلیہ سے تعرض کیا گیا ہے مثلاً: تفسیر القرآن بالقرآن، تفسیر القرآن بالحدیث،تفسیر القرآن باقوال الصحابہ، تفسیر القرآن بالرأی، علم قراءت، اسبابِ نزول آیات، علم ناسخ ومنسوخ، علم جرح وتعدیل وتطبیق بین القولین ، علم الحدیث والسیرۃ، علم نحو و ترکیب ، علم صرف وعلم اشتقاق، علم بیان و معانی، علم تاریخ، علم اللغۃ، علم الادب و ضرب الامثال، علم منطق، نیز تمام ِمخطوط کی توضیح میں مذکورہ بالا علوم عالیہ و فنون ِآلیہ کےعلاوہ علم عقائد، علم فقہ اور علم عروض سے صرف مدد ہی نہیں لی بلکہ فنون علمیہ کا اطلاقی پہلو اجاگرکر کے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔تا کہ قارئین کرام کو ایصال إلی المطلوب کی حد تک مقصود میں کامیابی مل جائے۔اس طرح بطور نظیر و نمونہ مضمون سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ قرآنی آیات و نصوص علم و فن کے خلاف نہیں بلکہ قرآن عظیم الشان ہی ان فنون علمیہ کا اصل منبع و سرچشمہ ہے۔ امام الدلجیؒ کو اس طرز پر خدام ِسیرت کے میدان کا شہسوار کہا جا سکتا ہے۔ نیز اگر فنی ذوق و شوق کو سامنے رکھتے ہوئے مخطوط کا زبانہائے عالم میں ترجمہ کیا جائے تو آج کے زمانہ میں ہر فن پسند فرد کی فنی اور علمی تشنگی دور ہو سکتی ہے ۔اور اس کیلئے امام محمد الدلجیؒ کا مخطوط" الاصطفاء لبیان معانی الشفاء" کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔


حوالہ جات:

  1. ۔ابو الفضل، عياض بن موسى بن عياض بن عمرون اليحصبی السبتی (476 - 544 ھ = 1083 - 1149 م) اُندلس کے ایک شہر سبتہ میں پیدا ہوئے ؛ مذہبِ مالکی کے جلیلُ القدر فقیہہ ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث ، لغت، اشعار، انساب اور وقائع عرب میں مہارت رکھتے تھے۔ اِن کے علمی ورثہ میں مشہور تصنیفات درج ذیل ہیں : مشارق الانوار على صحاح الآثار، ترتيب المدارك وتقريب المسالك، الالماع الى معرفة اصول الرواية وتقييد السماع، الشفاء بتعريف حقوق المصطفىوغیرہ ۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: وفيات الأعيان 3: 483،شذرات الذھب 6: 226
  2. ۔ابو عبد الله،شمس الدين، محمد الدلجی محمد بن محمد بن محمد بن احمد الدلجی العثمانی، الشافعی (860 - 947 ھ) مصر کے ایک شہر دلجہ میں پیدا ہوئے؛ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:فھرس دار الکتب المصریۃ212:2
  3. ۔ الشفا بتعريف حقوق المصطفى14:1
  4. ۔ سورۃ التوبہ:128
  5. ۔سورۃ الشعراء:3
  6. ۔آپ کا پورا نام نصر بن محمد بن احمد بن إبراهيم السَّمَرْقَنْدی، ابو الليث ہے ملقب بإمام الهدى ہیں۔ آئمہ احناف میں سے ہیں، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:الفوائد البهية 220 والجواهر المضيہ2: 196 و الآصفيہ 3: 250
  7. ۔آپ کا پورا نام الضحاك بن مزاحم الهلالی الخراسانی حضرت ابو ھریرۃؓ ، ابن عباسؓ، ابن عمر ،أنس اورطاوسؒ سے روایت کرتے ہیں، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: الكاشف للذهبی (1/509 رقم 2437)، وتقريب التهذيب لابن حجر (ص: 280 رقم 2978).
  8. ۔آپ کا پورا نام ابو العاليہ رُفَيع بن مهران ابو العاليہ الرِياحی کثیر الارسال راوی ہیں 90ھ یا 93ھ میں وفات پائی ، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: الكاشف للذهبی(1/397 رقم 1585)، وتقريب التهذيب لابن حجر (ص: 210 رقم 1953).
  9. ۔ آپ کا پورا نام يزيد بن عبد الله بن قسيط الليثی حضرت ابو ھریرۃؓ اور ابن المسيب سے روایت کرتے ہیں مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: الكاشف للذهبی (2/386 رقم 6329)، وتقريب التهذيب لابن حجر (ص: 602 رقم 7741).
  10. ۔أخرجه الحاكم فی"المستدرك "(2/ 262 برقم: 2945)
  11. ۔أخرجه الإمام الطبرانی (فی المعجم الكبير: 3/1383 رقم 860)
  12. ۔ مخطوطہ"الاصطفاء لبیان معانی الشفاء"اسم المكتبة: السليمانيه،تركيا، استانبول،ص؛37 رقم، الحفظ: 209
  13. ۔سورۃ ألانعام:8
  14. ۔أخرجه الإمام مسلم (فی صحيحه: 3/1383 رقم 1763)
  15. ۔الشفاء بتعريف حقوق المصطفى 14:1
  16. ۔ سورۃ الشعراء: 208
  17. ۔ سورۃ الحجر: 4
  18. ۔ سورۃ الشورى:23
  19. ۔أخرجه البخاری (فی صحيحه البخاری :4/178 رقم 3497)
  20. ۔أخرجه الطبری 23/25، والطبرانی (12233) و (12238)
  21. ۔مخطوطہ"الاصطفاء لبیان معانی الشفاء"ص؛38 و مجمع الأمثال ، رقم:1527، 288:1
  22. ۔آپؓ کا پورا نام كعب بن مالك بن عمرو بن القين، الأنصاری السلمی (بفتح السين واللام) الخزرجی ہے،مشھور صحابی ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: الأغانی 15: 29 والإصابہ: ت 7433
  23. ۔ البدايه والنهايه لابن كثير: (4/345).
  24. ۔ آپ کا پورا نام جرير بن عطية بن حذيفہ الخَطَفی بن بدر الكلبی اليربوعی قبیلہ تمیم سے تعلق تھا، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:وفيات الأعيان 1: 102
  25. ۔ الكامل فی اللغة والأدب لأبی العباس المبرد (2/104).
  26. ۔الشفا بتعريف حقوق المصطفی 1: 15
  27. ۔سورۃ آل عمران: 164
  28. ۔سورۃ الجمعة: 2
  29. ۔أخرجه ابن أبی شيبه 3/85، ومسلم (1080)، والنسائی فی "المجتبى"4/140،.
  30. ۔ ابن ابی عمر العدنی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ، جیسا کہ الشارحؒ نے ذکرکیا ، وه مسند مفقودہے،تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی۔
  31. ۔آپ کا پورا نام ابو النضر محمد بن السائب بن بشر بن عمرو ابن الحارث الكلبی ہے ،ماہر علم انساب شمار کیے جاتے ہیں، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: تهذيب التهذيب 9: 178
  32. ۔ أخرجه عبد الرزاق فى تفسيره 1/291، وابن جرير فی تفسيره 12/97۔
  33. ۔آپ کا پورا نام ابو عبد الله الزبير بن بكار بن عبد الله القرشی الأسدی المكی حضرت الزبير بن العوام کی اولاد میں آتے ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: ابن خلكان 1: 189 وآداب اللغہ 2: 193 وتاريخ بغداد 8: 467.
  34. ۔آپ کا پورا نام ابو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب الكنانی بالولاء، الليثی، جاحظ کے نام سے مشھور ہیں نیز ادب کے ائمہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ ممزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:إرشاد الأريب 6: 56 - 80 والوفيات 1:388
  35. ۔سورۃ النساء:22
  36. ۔ آپ کا پورا نام محمد بن إسحاق بن يسار المطلبی بالولاء، المدنی ہے،تمام عرب مؤرخین میں سب سے مقدم ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:تهذيب التهذيب 9: 38
  37. ۔الشفا بتعريف حقوق المصطفی 1: 16
  38. ۔سورۃ الأنبياء:107
  39. ۔ملا علی القاریؒ شرح الشفاء میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں محمد بن طاهر ہے ، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: شرح الشفا (1/44)
  40. ۔مجھے ان الفاظ کے سا تھ نہ مل سکی، زیلعی فرماتے ہیں کہ یہ بہت غریب ہے۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: تخريج الكشاف (1/336 رقم: 342) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں ملی، ابو ليث نے اپنی تفسير میں ذکر کیا ہے۔ (1/370).
  41. ۔ یہ شعر بحر کامل سے ہے ،جو کےابن خفاجہ الأندلسی، نے اپنے دیوان میں ذکر کیا ہے، عبد الله کی تحقيق اسکی سند ہے۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:(بيروت: دار المعرفة، ط 1، 1427/ 2006)، ص 13 - 14 اور تاج العروس میں بلا نسبة ذکر ہے۔ 1/ 59
  42. ۔ یہ شعر بحر طویل سے ہے،ابو علی نے جرير کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور یہ عبد يغوث حارثی کے قصيدة میں واقع ہوا ہے۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: الأغانی16/ 259؛ وخزانة الأدب 2/ 197
  43. ۔ آپ کا پورا نام خويلد بن مرہ ہے۔آپ کا تعلق مضر میں سے بنی هذيل سے ہے، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: الأغانی 21: 38 - 48 والإصابہ1: 464
  44. ۔ یہ شعر بحر طویل سے ہے، أشعار هذليين کی شرح میں أبی خراش کا ہے، ص 1222 اورلسان لعرب 3/ 138
  45. ۔الشفا بتعريف حقوق المصطفی 1: 16
  46. ۔ آپ کا پورا نام الحارث بن محمد بن أبی أسامہ داهر التميمی ،آپ حفاظ الحديث میں سے ہیں۔مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:مرآة الجنان 2: 194 وتذكرة الحفاظ 2: 175
  47. ۔ آپ کا پورا نام احمد بن عمرو بن عبد الخالق ابو بكر البزار ہے،آپ حفاظ الحديث میں سے ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: تذكرة الحفاظ 2: 204 وشذرات الذهب 2: 209
  48. ۔أخرجه البزار (كشف الأستار 1/397)
  49. ۔ سورۃ الأنفال: 33
  50. ۔ آپ کا پورا نام ابو الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيری النيسابورىّ ہے۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: تذكرة الحفاظ 2: 150،تهذيب التھذیب 10: 126
  51. ۔ أخرجه مسلم (7/65) ، البيهقی فی "دلائل النبوة" (3/77)۔
  52. ۔أخرجه مطولا ومختصرا ابن أبی شيبہ 11/439، ومسلم (2297) (32)۔
  53. ۔الشفا بتعريف حقوق المصطفی 1: 17
  54. ۔آپ کا پورا نام ابو الليث نصر بن محمد بن احمد بن إبراهيم السَّمَرْقَنْدی ہے، امام الهدى کی لقب سے ملقب ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:الفوائد البهيہ 220 والجواهر المضيہ2: 196
  55. ۔ آپ کا پورا نام ابو القاسم سليمان بن احمد بن أيوب بن مطير اللخميی الشامی ہے ،آپ کا شمار كبار محدثين میں ہوتا ہے، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے:وفيات الأعيان 1: 215
  56. ۔ آپ کا پورا نام احمد بن الحسين بن علی ہے،أئمه حديث میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجیئے: شذرات الذهب 3: 304
  57. ۔تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملا۔
  58. ۔سورۃ النجم:5
  59. ۔ دیکھئے : تفسير البیضاوی(5/157)، والسراج المنير (4/123).
  60. ۔سورۃ التكوير :20
  61. ۔ سورۃ الوااقعۃ:91