Playstore.png

تحریک قیام پاکستان: سید ابو الاعلی مودودی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلت

From Religion
Jump to navigation Jump to search

Warning: Page language "ur" overrides earlier page language "".

کتابیات
مجلہ الایضاح
عنوان تحریک قیام پاکستان: سید ابو الاعلی مودودی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلت
انگریزی عنوان
Pakistan Movement: Ideological Resemblance Between Syed Abūl Alā Mawdūdī and Mawlānā Ashraf Alī Thānwī
مصنف انور، حافظ ساجد
جلد 37
شمارہ 2
سال 2019
صفحات 109-135
مکمل مقالہ Crystal Clear mimetype pdf.png
یو آر آیل
کلیدی الفاظ
Pakistan Movement, Freedom, Political Agenda, Theological Thinking, Congress
شکاگو 16 انور، حافظ ساجد۔ "تحریک قیام پاکستان: سید ابو الاعلی مودودی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلت۔" الایضاح 37, شمارہ۔ 2 (2019)۔
مصادر قانون بطور سند اسلامی اور مغربی اصول قانون كا تحقیقی اور تقابلی جائزہ
امام خطابی کی غریب الحدیث تعارف، منہج واسلوب اور امتیازی خصوصیات
تعلیل احادیث صحیحین:امام ابو حاتم وأبو زرعہ كی آراء كا تنقیدی جائزہ
خاندانی نظام کے استحکام میں رزق حلال کا کردار
اردو میں عربی الفاظ کا املا: اختلافی مباحث کا تجزیاتی مطالعہ
تحریک قیام پاکستان: سید ابو الاعلی مودودی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلت
آیات مجیئت و رحمت کی تشریح میں امام الدلجی کے فنون علمیہ کا جائزہ: مخطوطہ الاصطفاء لبیان معانی الشفاء کی روشنی میں
الأسس والقرائن المنهجية الحديثية لتحقق العلم بالخبر:دراسة استقرائية في مصادر المصطلح وأقوال النقّاد
نظام التعليم المسجدي في الصين
أثر السياق في الجمع بين الروايات الحديثية للموضوع الواحد
أساليب المجاز الاستعاري في سورة الأنفال وتوبة ويونس
نظرات في تعامل الإمام الطبراني مع التفرد في الحديث من خلال كتابه المعجم الأوسط
المصادر في القراءات القرآنية بين النصب والرفع
Incongruity in Contemporary and Shariah Compliant Current Accounts and Ijarah Operated by Islamic Banking
Honour Killing in the Light of Islamic Law and Prevailed Customs in Pakistan
Islamic Perspective on Social Welfare

Abstract:

Syed Abul Ala Moudoodi and Maulana Ashraf Ali Thanwi were the genii of their time. They influenced political and religious trends of their time. They observed the period of Pakistan movement and struggle for freedom. Though Maulana Ashraf Ali Thanwi had passed away in 1943 whereas Syed Moudoodi died later in 1979. They belong to a different school of thought but they were coincident in their views about Pakistan movement. Syed Moudoodi having different political theology had a distinct political agenda. Because Syed Moudoodi was abandoned from Mysticism intentionally and started his political movement on his intellectual and theological thinking. On the other side Maulana Ashraf Ali Thanwi owing Mystic ideology; abandon from livelihood; though having deep insight in political affairs. This is very authentic that both having the same intellectual ideology; were against Congress and consider her like a poisonous killer. They had envisioned and desire to optimise the weaknesses of the Muslim League.

سید مودودی:

سید مودودی بلا شبہ عصر حاضر کی مؤثر شخصیت تھے۔ان کی فکری پختگی راسخ تھی جس نے اپنے زمانے پر ہی نہیں بلکہ بعد کے ادوار پر بھی گہر ے نقوش مرتب کیے ہیں وہ بیک وقت مصلح زمانہ ،بہترین مصنف اور ایک اسلامی تحریک کے داعی تھے۔ 
سید مودودی کی تاریخ پیدائش۲۵ستمبر۱۹۰۳ء مطابق ۳رجب ۱۳۲۱ھ ہے اور پیدایش کا مقام اورنگ آباد(دکن)ہے [1]۔سید صاحب کے والد سید احمد حسن مرحوم ،سرسید احمد خاں مرحوم کے قائم کردہ مدرسۃ العلوم (بعد میں مسلم یونیورسٹی) علی گڑھ کے ابتدائی طلبہ میں سے تھے۔ الہ آباد سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔مولانا رشیداحمد گنگوہی ؒ سے دورہ حدیث بھی مکمل کیا۔کچھ دن ریاست دیوگڑھ کے ولی عہد کے اتالیق رہے [2]۔اورنگ آباد صوبہ کے میر عدل مولوی محی الدینؒ کے مشورہ سے اورنگ آباد میں وکالت شروع کی۔مولوی صاحب مرحوم کی صحبت کے زیر اثر تصوف کا ذوق پید اہوا۔وکالت چھوڑ کر حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار کے قریب ایک بستی میں ڈیرے جمالیے۔ مولوی محی الدین صاحب ؒ نے جن سے وہ بیعت بھی ہو چکے تھے نصیحت کی تو اورنگ آباد واپس آئے ،بڑی چھان پھٹک کے بعد مقدمات کی پیروی کرتے۔ سید مودودیؒ ابھی ۱۲۔۱۳ سال کے تھے کہ ان کے والدبعارضہ فالج بھوپال میں فوت ہو گئے [3]۔ 
سید مودودی نسبی طور پر سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔اجداد میں چودھویں پشت میں سید المشائخ قطب الدین مودود چشتؒی ہیں جوتصوف کے سلسلہ چشتیہ کے بانی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے دادا پیر ہیں۔ان کی اولاد میں سے علامہ منتخب الدین ابوالاعلیٰ جعفرؒ ہندستان تشریف لائے [4]۔سید مودودیؒ کا شجرہ نسب بارھویں پشت میں ان سے ملتا ہے [5]۔ 
سید مودودی کے والد کو ان کی تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی بہت خیال تھا۔اس لیے ۹سال کی عمر تک ان کی تعلیم کا بندوبست گھر پر ہی کیا گیا[6]۔صرف و نحو،عربی ادب اور فقہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ فوقانیہ (انٹرمیڈیٹ) کی جماعت رشدیہ میں داخل ہوئے۔ چھ ماہ بعد ترقی پاکر جماعت مولوی میں آگئے۔۱۹۱۴ء میں گیارہ سال کی عمر میں مولوی کا امتحان پاس کیا[7]۔اس نصاب میں میٹرک کے پورے نصاب کے ساتھ عربی ادب،منطق میں مرقاۃ ، فقہ میں قدوری اور حدیث میں شمائل ترمذی شامل تھیں[8]۔ 
دارالعلوم حیدر آباد میں مولوی عالم میں داخل ہوئے۔والد کی شدید علالت کی وجہ سے باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا، تاہم انھوں نے بعدمیں ذاتی محنت ، کوشش ،ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ،اردو عربی کے علاوہ انگریزی میں اتنی مہارت حاصل کی کہ جدید علوم کے دروازے بھی ان پر کھل گئے۔[9] 
۱۹۱۴ءمیں مولوی (میٹرک) کا امتحان دیا اس زمانے میں والد مرحوم کی مالی مشکلات بڑھ گئی تھیں اور صحت بھی جواب دے گئی تھی کچھ عرصے بعد والد پر فالج کا حملہ ہوا چنانچہ بے سروسامانی میں اپنی والدہ کو لے کر بھوپال والد صاحب کی خدمت میں پہنچے۔یہیں زندگی میں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا احساس راسخ ہوا۔ 
۱۹۱۶ء سے ۱۹۲۱ء تک کا دور سخت مصائب ،خانہ بدوشی اور پراگندہ حالی میں گزرا [10]۔۱۹۱۷ء میں قیام بھوپال کے دوران وہاں کی علمی لائبریریوں میں تقریبا ڈیڑھ سال تک مطالعہ و تحقیق میں مستغرق رہے۔ اسی زمانے میں مولوی محمدفاضل سے انگریزی زبان کی تعلیم میں استعداد حاصل کی۔ اوراتنا عبور حاصل کیا کہ انگریزی تاریخ، فلسفہ ، سیاست، معاشیات، مذاہب اور عمرانیات کی کتابوں کا مطالعہ آسان ہو گیا۔۱۹۲۱ء میں قیام دہلی کے دوران میں ،ابتدائی زندگی کے ناساز گار حالات سے جو تعلیمی کمی رہ گئی تھی، اس کی تکمیل کی طرف توجہ دی اور اس شہر علم کے متعدد فاضل علماء اور اساتذہ سے عربی ادب، تفسیر، حدیث، منطق اور فلسفے میں علم کی تکمیل کی۔[11] 
۱۹۲۱ء میں جمعیۃ علمائے ہند نے اخبار’’مسلم‘‘ جاری کیا۔سید مودودیؒ اس کے مدیر مقرر ہوئے[12]۔ ۱۹۲۳ء میں اخبار بند ہو گیا[13]۔ ۱۹۲۵ءمیں ’’الجمعیہ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار نکالا گیا تو سید مودودیؒ ہی اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے[14]۔۱۹۲۸ء میں ’’الجمعیۃ ‘‘ سے قطع تعلق کیا اور مطالعہ و تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لیے خود کو وقف کر دینے کا مصمم ارادہ لے کر حیدر آباد منتقل ہو گئے اور پوری تندہی کے ساتھ مطالعہ و تحقیق میں مصروف ہو گئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مقصد زندگی اور نصب العین کا تعین کیا اور تمام متاع حیات اس کے لیے وقف کر دی [15]۔۱۹۳۲ء میں اپنے پیغام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کو ذریعہ بنایا۔ 
علامہ شبلی نعمانی کے قائم کردہ ادارہ ’’دارالمصنفین ‘‘ کا علمی ماہنامہ معارف کے نام سے چھپتا تھا۔’’معارف ‘‘ میں سید مودودی کا پہلا مضمون ’’برق یاکہربا‘‘ اکتوبر۱۹۱۸ کے شمارے میں شائع ہوا۔اس وقت سید مودودی کی عمر ۱۵ سال تھی [16]۔ ’’معارف‘‘ میں اس کے ۱۱سال بعد دسمبر۱۹۲۹ میں دوسرا مضمون’’لباس کا مسئلہ‘‘ شائع ہوا۔اگرچہ اس دوران مختلف رسائل و جرائد میں سید مودودی کی تحریریں شائع ہوتی رہیں[17]۔دسمبر۱۹۲۹ میں ہی سید مودودی کی معرکۃ الآرا کتاب ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘ کے حوالے سے شذرہ ’’معارف‘‘ میں موجود ہے اور ۱۹۳۰جنوری میں دارالمصنفین کی جن کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں الجہاد فی الاسلام کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے [18]۔فروری ،مارچ۱۹۳۲میں سید مودودی کی تالیف ، سلاجقہ حصہ اول کا مقدمہ آل سلجوق ،مقدمہ تاریخ سلاجقہ کے عنوان سے چھپا[19]۔ 
۱۹۳۶ء کے اوائل میں علامہ اقبالؒ نے ایک خط کے ذریعے ان کو دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی [20]۔۱۹۳۷ء میں لاہور آئے ،علامہ سے ملاقات ہوئی۔پنجاب منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔چوہدری نیاز علی مرحوم کے وقف کردہ ادارے کے رکن بنے۔ علامہ ؒ کے مشورہ سے اس ادارے کا نام ’’دارالاسلام ‘‘ رکھا گیا [21]۔۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو پٹھان کوٹ’’دارالاسلام ‘‘ پہنچے [22]۔نقل مکانی کی مصروفیات سے فارغ ہو کر علامہ ؒ سے ملنے کے لیے جانے کی تیاری میں تھے کہ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو پٹھان کوٹ ہی میں علامہ کے انتقال کی خبر ملی [23]۔ 
۱۹۳۹ء اور ۱۹۴۲ء کے دوران لاہور مىں قیام رہا۔ اسی زمانے میں ایک سال تک اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں اسلامیات کے پروفیسر کی حیثیت سے اعزازی خدمات انجام دیں ،کالج کی انتظامیہ نے بہ اصرار معاوضہ دینا چاہا تو استعفاء دے دیا[24]۔۲۶۔اگست۱۹۴۱ءکو آپ کی دعوت پر لاہور میں ۷۵افراد اور ۷۴روپے چودہ آنے کے سرمایے کے ساتھ ’’جماعت اسلامی ہند‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور آپ اس کے امیر منتخب ہوئے[25]۔ ۲۹ اگست ۱۹۴۷ء کو پٹھان کوٹ سے ہجرت کر کے لاہور آگئے [26]۔ 
۲۷ مئی ۱۹۷۹ء کو ان کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق بڑے اصرار کے ساتھ انہیں بغرض علاج اپنے ہمراہ امریکہ لے گئے جہاں ان کے معدے کے السر کا آپریشن ہوا۔۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء کو دل کا شدید دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور شام پونے چھ بجے ہسپتال ہی میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔[27] انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 
سید مودودی نے مسلمانوں کے زوال کے اصل اسباب کو واضح کیا اور اس کے تدارک کے لیے بہترین حل پیش کیا۔متحدہ قومیت کانعرہ ایک طرف خوشنما تھا تو دوسری طرف کانگریس کے مقاصد کی تکمیل اور اسلامیان ہند کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا تھا۔ 
بلا شبہ برصغیر ہندوپاکستان سے شائع ہونے والے بیسویں صدی کے لٹریچر میں متحدہ قومیت کے بارے میں علامہ اقبال اور مولانا مودودی کی تحریریں اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔پروفیسر خورشید احمد تحریک آزادی ہند اور مسلمان ،جلد اول کے مقدمے میں لکھتے ہیں: 

’’ مولاناکے ان مضامین کی یہی خصوصیت نہیں ہے کہ اپنے علمی اور منطقی طرز استدلال ،تاریخی استشہاد ، حسن بیان اور قوت اثر کی بنا پر یہ منفرد ہیں ،بلکہ ان کا عظیم ترین کارنامہ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے اسلامی تصور قومیت نے ایک سیاسی نصب العین کی شکل اختیار کی اور مسلمانوں کے سامنے ایک جداگانہ قوم ہونے اوراپنی جداگانہ قومیت اور تہذیب کو محفوظ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔‘‘[28]

تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پرتھی۔اس تصور کو پیش کرنے ،اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں مولانا مودودی صاحب کی تحریروں کا حصہ کیا تھا؟یعنی آل انڈیامسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری ،اس کی مجلس عمل (Committee of Action) اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکرٹری،جناب ظفر احمد انصاری نے سید مودودی کی تحریروں کی چاشنی اور دو قومی نظریہ کے لیے خدمات کو اجاگر کیا[29]۔ 
اسی طرح مولانا انصاری نے یہ بات بھی واضح کی کہ قرارداد پاکستان سے پہلے ہی تحریک قیام پاکستان کے لیے مختلف گوشوں سے آواز یں بلند ہو رہی تھیں جن میں ہندستان میں الگ مسلم ریاست کا مطالبہ موجود تھا۔مولانا مودودی کی اصطلاح حکومت الہٰیہ کے قیام کی تھی۔اسی طرح ہندستان اور خلافت ربانی وغیرہ کے الفاظ بھی استعمال ہوتے تھے علامہ اقبال نے بھی مسلم ہندستان کا خواب دیکھاتھا[30]۔ 
مشہور مسلم لیگی صحافی محمد شفیع(م۔ش) نے سید مودودی کے کردار کو مزید واضح کرتے ہوئے لکھا کہ علامہ اقبال بھی ترجمان القرآن میں سید مودودی کی تحریروں کو جستہ جستہ مقامات سے پڑھواتے تھے اور علامہ اقبال نے سید مودودی کو دینی خدمات وسرگرمیوں کے لیے حیدرآباد دکن آنے کی دعوت بھی بذریعہ خط دی تھی۔[31] 
سید مودودی کے ترجمان القرآن میں مضامین کا تذکرہ کیا اور تقسیم ہند کے لیے ان کے تین خاکوں کا ذکر کیا ہے۔[32] 
سید شریف الدین پیر زادہ صاحب ’’پاکستان منزل بہ منزل ‘‘ کے سلسلہ میں جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس میں اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ : 

’’وہ تجاویز اور مشورے جو سرعبداللہ ہارون ،ڈاکٹر لطیف ،سرسکندر حیات، ’’ایک پنجابی‘‘ سید ظفر الحسن ،ڈاکٹر قادری، مولانا مودودی ،چوہدری خلیق الزمان وغیرہ نے دیئے ،وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگ ہائے میل ہیں [33]‘‘

رسالہ ترجمان القرآن نے سید مودودی اوران کی دعوت کو پورے برصغیر میں متعارف کروا دیا تھااور نوجوان سید موودوی حاکمیت الہیہ کا ایک مربوط و مسلسل پروگرام رکھتے تھے دوسری طرف مولانا کی علمی گرفت بھی مسلم تھی چنانچہ بڑی تعداد میں ارباب فکر و نظر آپ کی طرف متوجہ ہوئے۔ان شخصیات میں سے ایک علامہ اقبال کی شخصیت بھی تھی۔ثروت صولت لکھتے ہیں: 

’’علامہ اقبال جیسی شخصیت بھی ان کے مداحوں میں شامل ہو گئی تھی۔علامہ اقبال ترجمان القرآن بہت دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے اور مولانا کی کتابوں میں سے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کا مطالعہ بھی کر چکے تھے اور اس کے مداح تھے۔علامہ اقبال اس زمانے میں فقہ اسلامی کی تدوین جدید کے سلسلے میں کام کرنا چاہتے تھے اس مقصد کے لیےانھوں نے مولانا مودودی سے خط و کتابت بھی کی اور جب مولانا مودودی نے کام کرنے کا نقشہ مرتب کرکے پیش کیا تو اقبال نے اس کو پسند کیا اور پنجاب منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ یہ نقشہ کار تقریبا ان ہی خطوط پر تھا جس پر بعد میں مولانا مودودی نے دارالاسلام کی بنیاد ڈالی۔

مولانا محترم نے ایک مرتبہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’۱۹۳۶ءکے اواخر میں ایک مرتبہ ڈاکٹر مرحوم نے مجھے توجہ دلائی کہ دکن چھوڑ کر پنجاب میں قیام کروں پہلی نگاہ میں اس تجویز نے مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا مگر جب ۱۹۳۷ء کے اواخر میں میں نے دکن چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور کسی دوسرے مستقر کی تلاش میں حیدر آباد سے نکلا تو مرحوم سے مشورہ کرنے کے لیے لاہور حاضر ہوا اوران سے بالمشافہ گفتگو کرنے کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا کہ آیندہ میرے لیے پنجاب میں قیام کرنا زیادہ مناسب ہے۔‘‘[34]

مولانا مودودی مارچ۱۹۳۸ء میں پٹھان کوٹ منتقل ہوئے اور ۲۱اپریل۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال کا انتقال ہو گیا۔مولانا مودودی نے ایک استفسار کے جواب میں کہا تھا : 

’’میرے اور ڈاکٹر اقبال کے درمیان جو بات طے ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ چند مستعد نوجوانوں کو اسلامی قانون پر تحقیق کی تربیت دی جائے اور پھر تدوین جدید کا کام شروع کر دیاجائے۔۔مولاناآگے لکھتے ہیں۔۔۔پٹھان کوٹ پہنچ کر میں ضروری انتظامات کرنے کے بعد ان کی دعوت پر لاہور جا کر ان سے ملنے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘[35]

یہ ایک حادثہ تھا جس سے مولانا بہت متاثر ہوئے اور اس حوالہ سے لکھا : 

’’سب سے بڑا مادی سہارا جس سے مدد کی توقع تھی اقبال کا سہارا تھا سو وہ بھی یہاں پہنچتے ہی چھین لیا گیا۔‘‘[36]

ثروت صولت ،اقبال اور سید مودودی کے اس تعلق اور ہم آہنگی کی بنیاد پر لکھتے ہیں: 

’’اقبال اور مولانا مودودی کے ان تعلقات کی روشنی میں بعض حضرات کا یہ قیاس بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا کہ اقبال نے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے لیے قائد اعظم کو اور فکری رہنمائی کے لیے مولانا مودودی کو منتخب کیا تھا۔‘‘[37]

اللہ تعالیٰ کی مشیت غالب ہے اور وہی اپنی حکمتوں سے بھی آگاہ اور واقف ہے تاہم یہ احساس ضرور پیدا ہوتاہے کہ اقبال اور سید مودودی کو اگر مل کر کام کرنے کا موقع میسر آتا تو بہت بڑی خوشگوار تبدیلی کی توقع کی جا سکتی تھی۔عمرحیات خان غوری لکھتے ہیں: 

’’علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے اس فکری تقابلی اور ان علمی کارناموں کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر علامہ اقبال کو حیات مستعار کے چند سال اور مل گئے ہوتے تو اس امر کی وضاحت بھی ہو جاتی کہ علامہ اقبال ہندستان کے مسلمانوں میں بالخصوص اور مسلمانان عالم میں بالعموم جس فکری تطہیر میں لگے ہوئے تھے اسے صحیح منزل سے روشناس کرانے اور اقامت دین کو تعمیری رخ دینے کے لیے غیر منقسم ہندستان کے لیےعلمائےدین میں سے اقبال کی نظر نوجوان مودودی پر ہی مرتکز ہو کر کیوں رہ گئی تھی ؟[38]‘‘

تحریک پاکستان کے مسلم لیگی پروگرام سے مولانا مودودی ؒ کے اختلاف کا سبب :

قیام پاکستان کے لیے مسلم لیگ نے جو جدوجہد کی اس میں مولانا مودودی صاحب نے عملا جس وجہ سے شرکت نہیں کی وہ مسلم لیگ کے طریق کار سے مولانا کا اختلاف تھا ان کا استدلال یہ تھا کہ : 
تحریک پاکستان سے اگر پیش نظر اسلامی ریاست کا حصول ہے تو اس کے لیے اخلاقی ،تہذیبی اور فکری و تعلیمی حوالوں سے بھی بھرپور کام اسی سمت میں کرنا ہوگا اس کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ 
تحریک کے کارکنوں کی تربیت اور فکر کی بالیدگی کی طرف توجہ دینی ہو گی اس لیے کہ محض بھیڑ کا اکٹھا کرنا کافی نہیں ہے بصورت دیگر یہی بھیڑ آپس میں انتشارو افتراق میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگ جائےگی۔ 
مسلمانوں کی بیداری اور متحدہ قومیت کے خطرات سے آگاہ کرنے میں سید مودودی کا کردار واضح ہے۔ 
ایچ۔بی۔ خان اس حوالہ سے لکھتے ہیں: 

’’مولانا مودودی نے جو اس وقت(1938)انفرادی حیثیت سے کام کر رہےتھے پوری شرح و بسط کے ساتھ کانگریس کے استعمار پرستانہ عزائم کا تاروپود بکھیرا۔مولانا نے ملک کے سیاسی حالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے بعض مسلم جماعتوں کی روش پر بھی تنقید کی اور اپنے مخصوص نظریے کے تحت جدید انقلابی نصب العین کی توضیح کی [39]۔مولانا نے 1937 اور 1939 کے درمیانی دور کے ملک کے سیاسی حالات پر پُر مغز تبصرہ کیا اور نیشلسٹ علمائےدیوبند اور جمعیت علمائے ہند پر بھی تنقید کی [40]۔‘‘

مسلم لیگ کی صف اول کی قیادت نے بھی اس حقیقت کو واضح کیا کہ سید مودودی کے لٹریچر اوران کی تحریروں کا تحریک آزادی ہند میں کتنا مؤثر کردار تھا۔پاکستان کے ممتاز مورخ مسلم لیگ کے سابق دانشور اور قائد اعظم ولیاقت علی خان کے معتمد ،کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے مسلم لیگی ممبرڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں : 

’’مولانا مودودی نے انڈین نیشنل کانگریس کی پالیسیوں کا جس طرح تجزیہ کیا اس نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں ان تحریروں کے نتیجے میں مولانا مودودی کے حامیوں کی تعداد میں تو زیادہ اضافہ نہیں ہوا لیکن اس کی وجہ سے مخلص اور ذہین مسلمان کانگریس سے برگشتہ ہو گئے اور ان کی اکثریت نے مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہو کر قائد اعظم کی قیادت قبول کر لی۔‘‘[41]

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی کانگریسی وزارتوں کے دور میں جاری کی گئی اسکیموں کی بھرپور مخالفت کی تھی اورودیا مند اسکیم ،واردھا اسکیم اور دیہات سدھار اسکیم کو مسلمانان ہند کے لیے نہ صرف مضر اور مہلک بلکہ اس کے نتیجے میں شعائر اسلام کے خاتمہ کے پوشیدہ منصوبے کو واضح کیا تھا [42]۔ 
مولانا کی تحریروں سے یہ بات اچھی طرح مترشح ہوتی ہے کہ : 
۱۔ مولانا مودودی کا کانگریس یا اس کی حلیف جماعتوں سے کبھی تعلق قائم نہیں ہوابلکہ وہ ان میں مسلمانوں کی شرکت کو خطرناک سمجھتے تھے۔ 
۲۔ مولانا متحدہ قومیت کے سخت مخالف تھے اورمسلمانوں کو جداگانہ قوم سمجھتے تھے یہی نظریہ مسلم لیگ کا بھی تھا۔ 
۳۔ مولانا سیکولر اور لادینی نظام کے خلاف تھے۔ 
طریق کار کے اختلاف کو مولانا نے صاف طور پر ظاہر کر دیا تھا ،چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عمل کے ایک خط کے جواب میں مولانا نے وضاحت کی تھی کہ تطہیر اور تعمیر کے بغیر اگر کوئی سیاسی تحریک برپا کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ خیز ہونا یقینی امر نہیں ہے البتہ اگر اس کے نتیجے میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو سید مودودی نے وضاحت کی کہ وہ اس کا ساتھ ضرور دیں گے۔[43] 
یہ تھا طریق کار کے بارے میں مولانا کا اختلاف اور اس کی نوعیت۔[44]۔ مولانا کی رائے کے بارے میں دو آرا ہو سکتی ہیں ، لیکن مستقبل کا مؤرخ بمشکل ہی اس بات کو نظر انداز کر سکے گا کہ تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام کو قائم کرنے کی راہ میں جو جو مشکلات پیش آئی ہیں اور آرہی ہیں اور آزادی کے بعد بھی ملک ابھی تک صرف اصولا ہی ایک اسلامی ریاست ہے ،عملا حقیقی اسلامی ریاست میں تبدیل نہیں ہو سکا ہے بلکہ اسلامی خطوط پر تبدیل کرنے والوں کو جس طرح جیل ،قتل اور پھانسی سے سابقہ پیش آرہا ہے اس کا پیشگی شعور مولانا مودودی صاحب کی تحریروں میں صاف پایا جاتا ہے اور آنے والے واقعات نے ان کے اندیشوں کی تکذیب کرنے کی بجائے توثیق کی ہے[45]۔ 
سید مودودی نے ان وجوہات کی بنیاد پر قیام پاکستان کی تحریک میں عملا شرکت نہیں کی لیکن اس حوالے سے فکری کام اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام انھوں نے شریعت مطہرہ کے اصولوں کی روشنی میں کیا تھا جب ہندستان کے ایک گروہ نے کہا کہ ہندستان کی تقسیم اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کو کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے تو مولانا مودودی نے کہا: 

’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے ،تمام روئے زمین ایک ملک ہے۔انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔یہ اب تک کی تقسیم اگرجائز تھی تو آیندہ مزید تقسیم ہوجائے گی تو کیا بگڑ جائے گا۔اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرہ خاک کو تمام ہندستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔‘‘[46]،[47]

سرحد کے ریفرنڈم میں پاکستان کی حمایت:

صوبہ سرحد اور سہلٹ کے ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی صاحب نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا اور لوگوں کو اس پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا[48]۔ 
اسی موقع پر پاکستان کے آیندہ نظام کے سلسلہ میں مولانا نے فرمایا: 

’’وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا جیسا کہ وعدہ کیا جا رہا ہے تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے اور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کر کے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کر رہے ہیں۔‘‘[49]

ریاست قلات کاپاکستان کے ساتھ الحاق:

ریاست قلات کے پاکستان کےساتھ الحاق کے اعلان سے پہلے خان قلات میر احمد یارخان نے اس اہم مسئلے پر مولانا مودودی سے رائے اور مشورہ مانگا تھا۔اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ خان آف قلات مولانا مودودی کے علم و فضل کے کتنے معترف تھے۔خان آف قلات نے مولانا قاضی عبدالصمد سربازی کو اپنا ایک دستی مکتوب دے کر کراچی مولانا مودودی سے ملاقات کے لیے بھیجا تھا اس مکتوب میں تھا: 

’’پورا بلوچستان دو حصوں میں تقسیم ہے۔ایک حصہ وہ ہے جو حکومت برطانیہ کے زیر تسلط تھا دوسرا حصہ وہ ہے جسے ریاست قلات کہتے ہیں۔ اگرچہ برطانوی دور میں یہ ریاست انگریزوں کے زیر اثر تھی لیکن ہمارے فیصلے شریعت کے مطابق ہی ہوتے تھے اب بھی ہمارے ہاں قاضی مقرر ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہم پاکستان سے علیحدہ رہتے ہوئے ایک آزاد اسلامی ریاست کا اعلان کردیں؟ اس معاملے میں ہم آپ کا مشورہ چاہتے ہیں۔‘‘

مولانا مودودی نے اس وقت جواب تحریر کیا اور مولانا قاضی عبدالصمد سربازی کے حوالے کر دیا۔مولانا کا مکتوب درج ذیل مفہوم کا حامل تھا۔ 

’’آزاد ریاست کے اعلان کا میں آپ کو مشورہ نہیں دے سکتا۔بلوچستان ایک پس ماندہ علاقہ ہے۔ریاست قلات اس سے زیادہ پس ماندہ ہے۔میں آپ کو مشورہ نہیں دوں گا کہ آپ علیحدگی اختیار کریں اور اس میں تعجیل کریں۔پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اور ہم اس ملک میں اسلام کے قانون کو فافذ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔آپ کی طرف سے علیحدگی کا اعلان کرنے سے حکومت کے ساتھ ٹکراؤ پیدا ہو گا جس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہے [50]۔‘‘

۹، ۱۰ مئی۱۹۴۷ء کے کل ہند اجتماع میں ۳۰جون۴۷ء کی تجویز تقسیم سے تقریبا ایک ماہ قبل مولانا مودودی نے خطاب عام کے اختتام پر فرمایا: 

’’اب یہ بات تقریبا طے شدہ ہے کہ ملک تقسیم ہوجائے گا۔ایک حصہ مسلمان اکثریت کے سپرد کیاجائے گا اور دوسرا حصہ غیر مسلم اکثریت کے زیر اثر ہوگا۔پہلے حصہ میں ہم کوشش کریں گے کہ رائے عامہ کو ہموار کر کے اس دستور و قانون پر ریاست کی بنیاد رکھیں جسے ہم مسلمان خدائی دستور وقانون مانتے ہیں۔ غیر مسلم حضرات وہاں ہماری مخالفت کرنے کے بجائے ہمیں کام کرنے کا موقع دیں اور دیکھیں کہ ایک بے دین قومی جمہوریت کے مقابلے میں یہ خدا پرستانہ خلافت،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت پر قائم ہو گی ،کہاں تک خود باشندگان پاکستان کے لیے اور کہاں تک تمام دنیا کے لیے رحمت و برکت ثابت ہوتی ہے۔‘‘[51]

یہ تھے وہ جذبات جن کا اظہار مولانا مودودی صاحب نے تقسیم سے قبل کیا اور اس طرح علمی حیثیت سے ایک محاذ کو مضبوط تر کیا۔اس کے ساتھ ساتھ جن مقامات پر علمی اور عملی تعاون ہو سکتا تھا اس سے کبھی گریز نہیں کیا۔ 
اسلامی تصور قومیت پر ان کے مضامین مسلم لیگ کے حلقوں میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے۔یہاں تک کہ مخالفین اور ناقدین نے بھی بعدازاں اس امر کا اعتراف کیا کہ سید مودودی کی ان تحریروں نے اسلام کے تصور قومیت کو واضح کرنے میں کتنا موثر کردار ادا کیا تھا۔ پروفیسر محمد سرور نے مولانا مودودی پر تنقید بھی بہت کی اور ان کی مخالفت بھی کرتے رہے لیکن مسئلہ قومیت کے حوالہ سے اپنی کتاب ’’مولانا مودودی کی تحریک اسلامی‘‘ کے صفحہ نمبر 108 پر فرماتے ہیں : 

’’مودودی صاحب کی اسلامی قومیت کی یہ فکر باقی ہندستان کے مسلمانوں میں بہت قبول ہوئی اور وہ اس لیے کہ اس وقت مسلمان یہ دیکھ رہے تھے کہ ہندوستانی قومیت دراصل ہندوقومیت بن گئی ہے اور ایسی قومیت میں اپنے ملی وجود کو مدغم کرنا انھیں کسی طرح بھی منظور نہیں تھا۔اس طرح اسلامی قومیت کا تصور قدرتی طور پر ان کی توجہات کا مرکز بن گیا چنانچہ کانگریس کے مخالف وہ تمام مسلمان جو جمعیت العلمائے ہند سے وابستہ علماء کے مذہبی مرتبے سے مرعوب تھے اب ان کو موقع ملا کہ وہ کانگریس کےحامی علماء کے مقابلے میں مولانا مودودی کو پیش کریں جو عالم بھی تھے اور صاحب قلم بھی ،واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے نام سے اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے نہایت معقول دلائل کے زور پر مولانا مودودی نے اس دور میں ہندستانی قومیت سے محفوظ رکھنے میں بڑا کام کیا اور اسلامی قومیت کو بحیثیت ایک سیاسی اصول کے مسلمانوں سے متعارف کروا یا[52]۔‘‘

جب یو۔ پی مسلم لیگ نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لیےعلماءکی ایک کمیٹی بنائی تو مولانا مودودی صاحب نے اس کی رکنیت قبول کی اورکام میں پوری دلچسپی لی۔حال میں وہ مسودہ چھپا ہے جو اس کمیٹی سے وابستہ ایک معاون تحقیق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے بطور ابتدائی خاکہ (Working Paper)تیار کیا تھا۔اس کے پیش لفظ میں مولانا عبدالماجد دریابادی صاحب نے لکھا کہ ۱۹۴۰ ءسے قبل مسلم لیگ کا سورج سوانیزے پر تھا تب انھوں نے ’’پاکستان ‘‘میں اسلامی نظام کے لیے علماءء کرام کی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جن کے ممبران درج ذیل تھے: 

(۱)مولانا سید سلیمان ندوی(۲)مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (۳)مولانا آزاد سبحانی (۴)عبدالماجد دریابادی۔[53]

اس سلسلے میں قمر الدین خان صاحب ریڈر سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کے ایک حالیہ مضمون کا اقتباس بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔موصوف نے لکھا ہے کہ وہ مولانا مودودی صاحب کے ایماپر ۱۹۴۱ء میں قائد اعظم سے ملےتھے۔ 

’’راجہ آف محمود آباد کی مدد سے گل رعنا(دہلی) میں ہماری ملاقات کا انتظام کیا گیا۔قائد اعظم پنتالیس منٹ تک بڑے صبر سے میری بات سنتے رہے اور پھر کہا کہ مولانا(مودودی) کی خدمات کو وہ نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا حصول ان کی زندگی اور کردار کی تطہیر سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نے کہا کہ جماعت اور لیگ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔جماعت اگر ایک اعلیٰ مقصدکے لیے کام کر رہی ہے تو لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے جسے اگر حل نہ کیاجا سکا تو جماعت کا کام مکمل نہ ہو سکے گا۔‘‘[54]

سید مودودی اخلاص کے ساتھ اصلاح اور تطہیر افکار کے ذریعے انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔یہ وہی فکری بنیادیں تھیں جو شریعت نے واضح کی ہیں اور بعد کے ادوار میں مشاہیر واسلاف امت نے ان خطوط پر ہی کام کیا ہے۔علامہ اقبال اور سید مودودی کی فکری مماثلت بھی اس حوالہ سے آگاہی و رہنمائی کرتی ہے۔[55] 

مولانا اشرف علی تھانوی:

برصغیر پاک و ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی کا نام انتہائی عقیدت و احترام کی علامت ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی کی پیدائش 5جمادی الثانی 1280ھ کو محلہ قصبہ خیل تھانہ بھون میں ہوئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا دادھیالی نام عبدالغنی تھا اس زمانے کے مشہور و مقبول مجذوب حضرت غلام مرتضی پانی پتی نے ان کا نام ’’اشرف علی‘‘ تجویز کیا[56]۔ایک بڑا دینی طبقہ ان کا معتقد ہے۔ان کی تحریریں اور مجالس، اصلا ح و ارشاد کا کام کرتی تھیں۔درس و تدریس اور بیعت و فیوض کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ 

برصغیر پاک وہند میں علماء کے رجحانات اور مولانا تھانوی:

اگرچہ برصغیر پاک وہند میں دینی طبقات تحریک پاکستان کے حوالےسے تقسیم تھے۔ ایک طرف مولانا محمد علی جوہر جو کہ مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس1906میں نہ صرف شریک تھے بلکہ کاروائی انھوں نے نوٹ کی تھی۔دوسری طرف کانگریس کی قیادت کے ساتھ بھی ہمنوائی موجود تھی اور تحریک خلافت اور تحریک ترک موالاۃ دونوں ساتھ ساتھ چلتی رہیں، اگرچہ کانگریس نے وفا نہ کی اور اس کا خمیازہ علی برادران کو بھی بھگتنا پڑا اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اسی طرح مولانا آزاد نسبتا کانگریس کے زیادہ قریب اور حلیف ثابت ہوئے۔مولانا جوہر کی رحلت تو پہلے ہو چکی تھی۔مولانا آزاد سات سال کانگریس کے صدر بھی رہے اور آزاد ہندستان کے پہلے وزیر تعلیم بھی رہے۔ 
دوسری طرف علماء کے طبقے میں بھی تقسیم موجود تھی۔علماء دیوبند کا بڑا حصہ تقسیم ہند کے منصوبے کے خلاف تھا اگرچہ نمایاں اور قد آور افراد تحریک پاکستان کے حق میں بھی تھے۔مولانا اشرف علی تھانوی کا موقف اس حوالے سے بہت واضح تھا۔ماہ جون 1928 کو کانگریس کے حلیف حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور تحریک خلافت کے لیڈر مولانا عبدالماجد دریابادی دونوں حضرات،حضرت تھانوی کو تھانہ بھون ملنے گئے اس سلسلے میں وہاں جو گفتگو ہوئی اس میں حضرت تھانوی نے پاکستان کا موہوم نقشہ پیش کر دیا۔حضرت تھانوی کے الفاظ یہ تھے: 

’’جی یوں چاہتا ہے کہ ایک خطہ پر خالص اسلامی حکومت ہو سارے قوانین تعزیرات وغیرہ کا اجرا ءاحکام شریعت کے مطابق ہوں بیت المال قائم ہو ،نظام زکوٰۃ رائج ہو ، عدالتیں قائم ہوں دوسری قوموں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے یہ نتائج کہاں حاصل ہو سکتے ہیں اس مقصد کے لیے تو صرف مسلمانوں ہی کی جماعت ہونی چاہیے اور اس کویہ کوشش کرنی چاہیے۔ ‘‘

مولانا عبدالماجد دریابادی جب پہلی مرتبہ تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی تھانوی سے ملے تو ان کے تاثرات کیا تھےاس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالماجد دریابادی نے لکھا: 

’’1928تھا اور مخاطب روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ کا ڈائریکٹر تھا۔صبح اور دوپہر کی طویل صحبت میں سیاسی پہلوؤں پر گفتگو آجانا ناگزیرسا تھا۔گفتگو آئی حضرت نے اتنی معقولیت سے کی کہ ساری بدگمانیاں کافور ہو کر رہیں۔‘‘

آگے چل کر لکھتے ہیں: 

’’پاکستان کا تخیل ،خالص اسلامی حکومت کا خیال یہ سب آوازیں بہت بعد کی ہیں۔پہلے پہل اس قسم کی آوازیں یہیں کان میں پڑیں، حضرت کی گفتگو میں یہ جزو بالکل صاف تھا۔‘‘[57]

مولانا اشرف علی تھانوی کا یہ واضح موقف تاریخ پاکستان کی ایک انمٹ حقیقت ہے کہ وہ واضح موقف اور کلئیر وژن کے ساتھ ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھنے والوں میں شامل تھے۔مولانا عبدالماجد دریاآبادی ایک اور جگہ مولانا تھانوی کے اس واضح موقف کی تفصیلات بیان کرتے ہیں : 

’’حضرت تھانوی کو بعض معاصر علماءکی طرح جنگ آزادی ،جنگ حقوق ،آزادی وطن وغیرہ سے کوئی خاص دلچسی نہ تھی۔ان کے سامنے مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ تمام تر دینی تھا، وہ صرف اسلام کی حکومت چاہتے تھے۔ حضرت نے ایک ملاقات میں دارالاسلام کی اسکیم خاص تفصیل سے بیان فرمائی تھی کہ جی یوں چاہتا ہے کہ ایک خطہ پر خالص اسلامی حکومت ہو ،سارے قوانین تعزیرات وغیرہ کا اجرااحکام شریعت کے مطابق ہوں، بیت المال ہو ،نظام زکوٰۃ رائج ہو ،شرعی عدالتیں قائم ہوں وقس علی ھذا دوسری قوموں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے یہ نتائج کہاں حاصل ہو سکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے تو صرف مسلمانوں ہی کی جماعت ہونی چاہیے اور اس کو یہ کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘[58]

23تا26اپریل 1943ءکا آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس ہو رہا تھا۔مسلم لیگ کی طرف سے حضرت تھانوی کی خدمت میں دعوت نامہ بھیجا گیا جس کے الفاظ درج ذیل تھے : 

’’آپ اس موقعہ پر خود دہلی تشریف لا کر اپنے ارشادات سے مجلس کو ہدایت دیں لیکن اگر حضورتشریف نہ لا سکیں تو اپنے نمایندہ کو بھیج کر مشکور فرمائیں اور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کے رعب سے غیر مسلموں کے دلوں کو مسحور کر دے اور ہمارا مطالبہ پاکستان منوا دے تاکہ سلطنت اسلامی قائم ہو سکے[59]۔‘‘

یہ حضرت تھانوی کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے جب کہ حضرت تھانوی ضعف اور نقاہت میں مبتلا تھے اس لیے حضرت تھانوی نے شرکت سے معذوری ظاہر کی ،جوابی خط ارسال کیا اور اپنی دوکتب حیا ت المسلمین اور صیانۃ المسلمین کا تذکرہ کیا ،اول الذکر بھجوا دی اور ثانی الذکر کو دہلی میں لینے کی ہدایت کی۔ 
قاری فیوض الرحمن لکھتے ہیں: 

’’مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی اسکول کے اس گروپ میں سربراہ تھے جس نے آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت میں نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر کام کیا۔اس گروپ میں مولانا شبیر احمد عثمانی ،مولانا ظفر احمد تھانوی اور مفتی محمد شفیع شامل تھے۔ مولانا نے 15ستمبر1938 کو لکھنؤ میں فرمایا:

’’میں نے جو اعلان شائع کیا ہے اس میں مسلم لیگ کی حمایت کی ہے مگر صاف لکھ دیا ہے کہ مسلم لیگ اور کانگریس دونوں قابل اصلاح جماعتیں ہیں ہاں مسلم لیگ کانگریس سے نسبتاً بہت اچھی ہے ،لہذا اس میں اصلاح اور درستی کی نیت سے شریک ہونا چاہیے‘‘

مولانا تھانوی مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے خواہشمند تھے اس کا تذکرہ ان کے ملفوظات میں اکثر ملتا ہے۔ 17ستمبر1938کو لکھنؤ میں فرمایا:

’’میری دلی تمنا اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت مسلمہ عادلہ قائم فرمائے اور میں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں[60]‘‘

مولانا اشرف علی تھانوی کی پاکستان کی تحریک میں دلچسپی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت تھانوی نے ایک مرتبہ بعض سیاسی فیصلوں کی بابت تفصیلات جاننے کے لیے ایک وفد قائد اعظم کی خدمت میں دہلی بھیجا۔یہ وفد مولانا شبیر علی تھانوی،مولانا ظفر احمد عثمانی ،مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا عبدالکریم پر مشتمل تھا۔قائد اعظم نے انتہائی تحمل سے وفد کی بات چیت سنی اور سیاسی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔[61] 
مولانا اشرف علی تھانوی نے کانگریس کے مقابلہ میں مسلم لیگ کو مکمل سپورٹ دی۔1935میں جھانسی میں جب کانگریسی امیدوار مسلم لیگ کے امیدوار کے مقابل آئے تو مولانا شوکت علی نے تار دے کر مولانا تھانوی سے استفتا حاصل کیا کہ ووٹ کس کو دینا چاہیے۔مولانا تھانوی کی رائے آئی کہ مسلم لیگ کو ووٹ دینا چاہیے جس پر جھانسی میں کانگریس کا امیدوار ہار گیا اور مسلم لیگ کا امیدوار جیت گیا اور مولانا شوکت علی شکریہ کےلیے تھانہ بھون گئے۔[62] 
برصغیر میں ۱ء میں سیاسی اختلاف ایک بڑی حقیقت تھی اور یہ انتشار کا سبب بھی تھا۔دارالعلوم دیوبند کے اکابر جب کھل کر کانگریس کی حمایت کرنے لگے تو مولانا اشرف علی تھانوی نے دارالعلوم کی سرپرستی سے استعفیٰ دے دیا۔[63] 
کانگریس نے اپنے دور وزارت میں جب ودیا مندر ،واردھا اور دیہات سدھار اسکیمیں رائج کیں اور مسلمانوں سے براہ راست رابطہ (Mass Contact)کی مہمات چلائیں تو مولانا تھانوی نے اس کی بھر پور مخالفت کی۔وہ کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کے اشتراک کے یکسر خلاف تھے۔انھوں نے جمعیت علمائےہند کے پاس بھی وفود بھیجے اور ان کا موں میں کانگریس کے ساتھ تعاون و موالات سے منع کیا [64]۔مولانا تھانوی نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں فرمایا: 

’’واردھا اسکیم مسلمانوں کی مذہبی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو گی چونکہ اس اسکیم میں گاندھی ازم اور دھریت کی تخم ریزی کی گئی ہے [65]۔‘‘

ہندستان میں کانگریس کے اقتدار کو حضرت تھانوی ایک عظیم خطرہ گردانتے تھے ،یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے معتقدین کو کانگریس سے دور رہنے کی ترغیب دیتے تھے۔حضرت تھانوی نے ایک موقع پر کہا: 

’’اگرخدانخواستہ یہ جماعت ہندستان میں برسر اقتدار آگئی اور خدا نہ کرے وہ دن آئے تو یہ بھی ہندستان میں وہی کریں گے جو(روس میں )بالشویک کر رہے ہیں۔‘‘[66]

ایک اور موقع پر حضرت تھانوی کہتے ہیں: 

’’مسلمانوں خصوصا علماء کا کانگریس میں شریک ہو نا میرے نزدیک مہلک ہے بلکہ کانگریس سے بیزاری کا اعلان کر دینا بہت ضروری ہے۔ علماءکو خود مسلمانوں کی تنظیم کرنی چاہیے۔مسلمانوں کو کانگریس میں داخل ہونا اور داخل کرانا میرے نزدیک ان کی دینی موت کے مترادف ہے۔‘‘[67]

حضرت تھانوی اس تصور میں اتنے راسخ تھے کہ مداہنت کا تصور تک نہیں ہو سکتا تھا۔انھوں نے 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے اسباب میں ایک اہم سبب بھی اس کو شمار کیا ہے : 

’’1857کی جنگ آزادی میں اس لیے ناکامی ہوئی کہ اس تحریک میں ہندوشامل تھے۔دونوں شانہ بشانہ لڑ رہے تھے مگر ہندوؤں نے وقت پر دغا دی۔ اب بھی ان سے وفا کی امید نہیں ہے۔یہ وقت پر دھوکہ دیں گے۔ مسلمان اپنے ہی پاؤں پر کھڑا ہو کر کامیاب ہو سکتا ہے۔دوسروں کے سہارے کبھی نہیں۔‘‘[68]

کانگریس کی مخالفت حضرت تھانوی میں اتنی شدید تھی جس طرح کہ اس کے برعکس بعض علماءدیوبند کانگریس کے ہمنوا اور حامی و مدد گار تھے۔ایک موقع پر حضرت تھانوی نے کہا: 

’’یہی ہندو تو تھے جنھوں نے انگریزوں سے مل کر مسلمانوں کی 1857کی جنگ آزادی میں مخبریاں کیں اور ان کو پھانسی چڑھوایا۔یہ قوم بڑی احسان فراموش ہے۔یہ انگریزوں سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں۔‘‘[69]

حضرت تھانوی نے 1938میں ایک دن اپنے برادر زادہ مولانا شبیر علی تھانوی جو کہ خانقاہ امدادیہ کے مہتمم بھی تھے بلایا اور کہا: 

’’میاں شبیر علی!ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہو جائیں گے اور جو سلطنت ملے گی وہ ان ہی لوگوں کو ملے گی جن کو آج سب فاسق فاجر کہتے ہیں۔مولویوں کو تو ملنے سے رہی لہذا ہم کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ یہی لوگ دیندار بن جائیں۔‘‘[70]

مولانا شبیر علی نے یہ سن کر عرض کیا کہ پھر تبلیغ نیچے کے طبقہ یعنی عوام سے شروع ہو یا اوپر کے طبقہ یعنی خواص سے اس پر آپ نے فرمایا:اوپر کے طبقہ سے کیوں کہ وقت کم ہے خواص کی تعداد کم ہے اور الناس علی دین ملوکھم۔اگر خواص دیندار اور دیانت دار بن گئے تو ان شاء اللہ عوام کی بھی اصلاح ہو جائے گی [71]۔ 
حضرت تھانوی کے مرید خاص اور قائد اعظم کے دست راست نواب جمشید علی خان صاحب کے پاس اکثر قائد اعظم موسم سرما میں جایا کر تے تھے۔نواب صاحب لکھتے ہیں: 

’’یہ حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی تمام تر دینی تربیت حضرت تھانوی کا فیضان تھا اور ان کا اسلامی شعور حضرت والا کی بدولت تھا۔مولوی شبیر علی تھانوی نے قائد اعظم کو حضرت والا کے قریب لانے میں بڑا کام کیا۔قائد اعظم باغپت کے دوران قیام میں حضرت والا کا بہت خلوص اور ادب سے تذکرہ فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ قائد اعظم کو تھانہ بھون حاضر ہونے کا بہت شوق تھا لیکن افسوس کہ چند درچند وجوہات کی بنا پر ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی [72]۔‘‘

حضرت اشرف تھانوی نے قائد اعظم محمد علی جناح سے مراسلت بھی کی اور وفود بھی بھیجے۔1938کو تھانوی نے قائد اعظم کو خط لکھا جس میں لکھتے ہیں: 

’’میں نے دل سے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام کی قوت کا ذریعہ بنائے۔میں بکثرت دعا میں مشغول رہتا ہوں۔ واقعی آپ کے بہت مشاغل ہیں اور نہایت اہم ہیں۔۔۔۔

آگے چل کر لکھتے ہیں۔۔۔۔میں بلا کسی تکلف کے عرض کرتا ہوں کہ میری معروضات کا جواب دینے کا اہتمام نہ فرمایاجائے، میں انتظار نہ کروں گا،البتہ میرے لائق کوئی خدمت یا مشورہ کی غرض سے کوئی استفسار ابتدا ذہن عالی میں آجاوًے تو آپ کے الطاف نامے کو فخر سمجھوں گا۔‘‘[73]

بارہا اشرف علی تھانوی نے قائد اعظم کی خدمت میں وفو دبھیجے۔ اکثر وبیشتر ان وفود کی ذمہ داری مولانا شبیر احمد تھانوی کی ہوتی تھی۔[74] 
اس نوعیت کے ایک وفد نے قائد اعظم سے اڑھائی گھنٹے ملاقات کی اور برابر گفتگو ہوتی رہی۔آخر کار یہ خانقاہ نشین علماء دنیا کے اس بڑے اور کامیاب سیاستدان سے یہ منوانے میں کامیاب ہوئے اور قائد اعظم نے اپنے الفاظ میں تاریخی فیصلہ سنایا: 

’’دنیا کے کسی مذہب میں سیاست مذہب سے الگ ہویا نہ ہو میری سمجھ میں اب خوب آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔‘‘[75]

مولانا اشرف علی تھانوی جب مسلم لیگ کے حق میں رائے دیتے تھے اور اس کا بڑا اثران کے مریدین اور متبعین پرہوتا تھا اسی طرح وہ کانگریس،ہندؤں اور کانگریسی علماء کی مخالفت کرتے تھے[76]۔اس عرصہ میں مولانا اشرف علی تھانوی پر بھی سب و شتم کیا گیا تھا اوران پر الزامات عائد کیے گئے کہ وہ مسلم لیگ سے پیسہ لے کر ان کی حمایت کرتے ہیں۔[77] 
مولانا اشرف علی تھانوی نے تو گاندھی کی فریب کاریوں اور مکاریوں کے باوصف انھیں جابجا عیار، چالاک ، شاطر،طاغوت اور شیطان کے القاب سے یاد کیا ہے۔[78] 
20جولائی1943کو مولانا تھانوی طویل بیماری کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔مسلم لیگ نے مولانا تھانوی کی رحلت کے بعد جو قرارداد 14نومبر1943کو پاس کی اس کے الفاظ سے مولانا کی ان کے ہاں قدرومنزلت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ 

’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے مولانا مرحوم ایک جید عالم تھے انہوں نے سینکڑوں کتابیں لکھیں۔ لاکھوں لوگ ان کے مرید تھے انہوں نے اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں جو خدمات سرانجام دیں ان کااحاطہ کرنا مشکل ہے ان کی وفات مسلم لیگ کے لیے مزید دکھ کا باعث ہوئی کہ مولانا کی تائید و حمایت اس کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئی[79]۔‘‘

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سیاسی فکری جانشینی: 
علامہ شبیر احمد عثمانی ابتداسے حضرت تھانوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قیام پاکستان کے لیے مسلم لیگ کے ہمنوا تھے۔ 28جنوری 1946 کو شبیر احمد عثمانی ودیگر علماءکے ساتھ لاہور پہنچے اور مولانا عبدالقدوس کے ہمراہ پریس کانفریس میں اظہار کیا اور فرمایا: 

’’جمعیت العلمائے اسلام کسی سیاسی جماعت کا ضمیمہ نہیں ہے بلکہ مستقل جماعت ہے چونکہ اس وقت مسلم لیگ اسلامیان ہند کی بہتری کے لیے کوشاں ہے اور دشمنان اسلام کا مقابلہ کر رہی ہے اس لیے ہم مسلم لیگ کی حمایت کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔مزید فرمایا۔۔۔۔۔۔تمام علماء و مشائخ اب حجروں سے باہر نکل کر آئیں اور عملی طور سے مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔انھیں حصول پاکستان کے قابل بنائیں اور پاکستان قائم ہونے کے بعد انھیں ’’کمال ازم ‘‘ اختیار کرنے سے روکیں [80]۔‘‘

تحریک پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے کردار کو ایچ ، بی ،خان اپنی کتاب میں یوں واضح کرتے ہیں : 

’’علماء کے ایک مقتدر گروہ میں مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا شبیر احمد عثمانی کے علاوہ دیگر علماء اور مشائخ بھی شریک تھے یہ گروہ مسلم لیگ کے مجوزہ پاکستان اور اس کی پالیسیوں کی تائید و حمایت کرتا تھا اس گروہ کا موقف یہ تھا کہ مسلم تہذیب و تمدن ،ثقافت و معاشرت، معیشت و تجارت، صنعت و حرفت اورسیاسی اقتدارو غلبہ کے لیے مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا ہونا ضروری ہے۔۔۔۔آگے چل کر لکھتے ہیں۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی نمایاں کامیابی میں ان علماء کی خدمات کا بھی اہم حصہ تھا[81]۔‘‘

مولانا اشرف علی تھانوی کے اس فیض کا اثر مولانا شبیر احمد عثمانی کی مساعی میں جھلکتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد بھی مولانا شبیر احمد عثمانی کا کردار انتہائی مؤثر رہا اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی پاکستان بنانے میں انھوں نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ا سی طرح علامہ سید سلیمان ندوی بھی جو حضرت تھانوی سے فیض یافتہ تھے پاکستان کو اسلامی پاکستان بنانے کے لیے ان کی مساعی حسنہ بھی محتارج تعارف نہیں۔یہاں تک کہ 31 علماء کے بائیس نکات مرتب کرنے والی کمیٹی میں سید سلیمان ندوی نے ہی صدارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ 
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مئی 1947 میں دارالاسلام پٹھان کوٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا: 

’’موجودہ تہذیب کی قوم پرستانہ لادینی جمہوری حاکمیت کے مقابلے میں ایک خدا پرستانہ انسانی جمہوری خلافت قائم کرنا جماعت اسلامی کا نصب العین اور تقسیم ملک کے نتیجے میں جو حصہ مسلمانوں کے سپرد ہو گا اس میں رائے عامہ کو ہموار کر کے اس ریاست کی بنیاد ہم اس دستور قانون پر رکھیں گے جسے ہم خدائی دستور وقانون مانتے ہیں [82]۔‘‘

اس تقریر کے تقریبا ڈھائی ماہ بعد جب قیام پاکستان عمل میں آیا اور بعدازاں جماعت کا قافلہ 30اگست1947 کو دارالاسلام پٹھان کوٹ سے لاہور پہنچا [83]۔ 
سید مودودی نے جماعت اسلامی کے مرکزی نظم کے لیے اس وقت کے سنگین حالات کے مطابق بہترین فیصلے کیے مثلا لاہور کی صفائی اور مہاجرین کی خدمت کے اقدامات کیے گئے۔ اسی طرح توسیع دعوت کا پروگرام جاری کیا۔ریڈیو پاکستان کی دعوت پر لاہور ریڈیو اسٹیشن سے مولانا مودودی نے اسلامی نظام حیات پر ایک سلسلہ تقاریرشروع کیا جو 4جنوری سے 16مارچ1948تک مختلف تاریخوں میں نشر ہوتا رہا۔ان تقایر میں ایک تقریر براہ راست پاکستان کے آیندہ نظام کے بارے میں نشر ہوئی۔یہ ایک مذاکرہ کی صورت میں سوال وجواب کا سلسلہ تھا اور اس کا موضوع تھا ’’کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے؟[84]‘‘ 
سید مودودی نے اسلامی دستور کے مطالبے کی بھرپور مہم بھی چلائی۔ قرار داد مقاصد کی صورت میں دستور کو اسلامیانے کے لیے بھی سید مودودی ور مولانا شبیر احمد عثمانی کی خدمات قابل قدر ہیں۔اس حوالے سے جماعت کی ساری جدوجہد دستور ساز اسمبلی سے باہر ہو رہی تھی اور مولانا شبیر احمد نے اس محاذ کو بھی اسمبلی کے اندر سنبھال رکھا تھا۔ اپریل1948میں کراچی میں ایک مرتبہ مولانا مودودی اور شبیر احمد عثمانی کی ملاقات بھی ہوئی تھی [85]۔ 
قرارداد مقاصد کا مسودہ جب تیار کیا گیا تو شومئی قسمت سے سید مودودی اس وقت ملتان جیل میں تھے۔زیر تجویز مسودہ مولانا مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا اور بالآخردینی طبقے کی کوششوں سےقرار داد منظور کر لی گئی [86]۔ 
قرار داد مقاصد کی منظوری اسلام دشمنوں کی بہت بڑی شکست تھی۔اس قرار داد سے مفر ممکن نہ تھا چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانی کی تجویز پر اسمبلی میں دستور کی رہنمائی کے لیے ایک بورڈ تشکیل دیا گیا جس کا نام تعلیمات اسلامی بورڈ رکھا گیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا محمد اکرم خان اس کے نگران مقرر ہوئے اور مولانا سید سلیمان ندوی ،مفتی محمد شفیع ، مولانا سید جعفر حسین ،پروفیسرعبدالخالق اور ڈاکٹر حمید اللہ اس کے ارکان مقرر ہوئے [87]۔ 

31 علماء کے بائیس نکات:

مولانا احتشام الحق تھانوی نے کراچی میں علماء کو ایک اجتماع کی دعوت دی اور جنوری 1951 میں تمام مکاتب فکر کے علماءاکھٹے ہوئے۔تین روز کے اجلاس میں ان اصولوں پر اتفاق کیا گیا جو اسلامی ریاست کے دستور کی بنیاد ہونے چاہییں۔ سید سلیمان ندوی نے ان اجلاسوں کی صدارت کی اورسید مودودی نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ متفقہ فیصلہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے [88]۔ 

خلاصہ بحث:

مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی عصرحاضر کی مؤثر شخصیات تھیں ۔ان کی شخصیت اور علم و فن کے دیرپا اثرات آج بھی ان کی تحریکات اور متبعین کے فکر و عمل میں نظر آتے ہیں۔ تحریک قیام پاکستان کے پس منظر میں ان دونوں کی شخصیت اور نکتہ نظر کو سمجھنا کئی حوالوں سے افادیت کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ 
اولاً یہ کہ ان دونوں بزرگوں کے نکتہ نظر میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا ۔دونوں کے مکتب فکر میں فرق ضرورتھا۔ مولانا تھانوی خانقاہی نظام سے وابستہ تھے جبکہ مولانا مودودی نے آباو اجداد کے خانقاہی نظام کو ترک کر دیا تھا اس کے باوجود اصلاح امت اور کردار وگفتار کی تطہیروتعمیر دونوں کا نصب العین تھا۔ 
ثانیاًتحریک قیام پاکستان میں دونوں کی فکری مماثلت تھی کہ کانگریس کے سیاسی پروگرام سے سخت بیزار تھے ۔ایک الگ اسلامی ریاست کا حصول دونوں کا مطمحٔ نظر تھا ۔مولانا تھانوی اس حوالہ سے مسلم لیگ کے سیاسی پروگرام سے متفق تھے جبکہ سید مودودی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکر ی تربیت اور اصلاح کے بھی خواہاں تھے بلکہ فکری اصلاح و تربیت کو سیاسی جدوجہدسے زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔اس حوالہ سے مولانا تھانوی بھی مکمل بے فکری میں نہ تھے بلکہ ان کا مطمحٔ نظر یہ تھا کہ مسلم لیگ کے کارکنوں کی اصلاح و تربیت کا کام ہمیں کرنا چاہیے۔ 
ثالثا یہ کہ آج سیکولر طبقہ قیام پاکستان کے حوالہ سے دین سے وابستہ شخصیات کے بارے میں پروپیگنڈے کا شکار ہو کر یہی کہتا ہے کہ علما کرام نے پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے تاکہ سب مل کر پاکستان کو اس کی حقیقی منزل یعنی ایک اسلامی رفاہی ریاست کی طرف بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ 

حوالہ جات:

  1. ۔محمد یوسف ،بھٹہ، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں ،ادارہ معارف اسلامی ،لاہور، 1984، ص17
  2. ۔ابوالآفاق،ایم اے،سیدابوالاعلیٰ مودودی، سوانح،افکار،تحریک ،اسلامک پبلیکشنز ،لاہور،1971، ص46
  3. ۔گیلانی ،سیداسعد،سید مودودی، دعوت و تحریک ،اسلامک پبلیکیشنز لمٹیڈ،لاہور،1980،ص 55
  4. ۔ ابوالآفاق،ایم اے،سیدابوالاعلیٰ مودودی، سوانح،افکار،تحریک ،اسلامک پبلیکشنز ،لاہور،1971، ص45
  5. ۔ نعمانی عاصم، تصوف اور تعمیر سیرت ،ص 18،مولانا مودودی کی تحریروں کی روشنی میں ،اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ،لاہور، 1972ء، ص31 محمد زکریا،شیخ الحدیث ، تاریخ مشائخ چشت، مجلس نشریات اسلام کراچی ، 1397ھ، ص151
  6. ۔محمد یوسف بھٹہ،مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص24
  7. ۔محمد یوسف بھٹہ ، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں،ص30
  8. ۔گیلانی ، سید اسعد، سید مودودی ،دعوت وتحریک ، ص74
  9. ۔ثروت ،صولت، مولانا مودودی کی تقاریر، ج1، اسلامک پبلیکیشنز،لمٹیڈ ،لاہور،پاکستان، 1976ء،ص23
  10. ۔محمد یوسف بھٹہ، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں ،ص35 ابوالآفاق ،ایم اے ، سیدابوالاعلیٰ مودودی ، سوانح،افکار تحریک ،ص79
  11. ۔نعمانی ، عاصم، تصوف اور تعمیر سیرت،ص 18،اسلامک پبلکیشنز لمٹیڈ، لاہور،پاکستان، 1972ء،ص22
  12. ۔فاروقی، رفیع الدین(مرتب) مقالات مسلم دہلی، سہیل گرافکس،حیدرآباد، انڈیا، 2016، ص14
  13. ۔ابوالآفاق،ایم اے، سید ابوالاعلیٰ مودودی، سوانح،افکار، تحریک ،ص79
  14. ۔ابوالآفاق، ایم اے ، ص79 محمد یوسف بھٹہ ، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں ،ص46
  15. ۔مودودی، سیدابوالاعلیٰ ،دعوت وتحریک ، ص172
  16. ۔نعیم صدیقی، جمیل رانا، سلیم منصور خالد، تذکرہ سید مودودی، ج1، ادارہ معارف اسلامی لاہور، 1986، ص142
  17. ۔ بعدازاں یہ مضمون مولانا خلیل احمد حامدی نے اردو سے عربی ترجمہ کر کے ’موقف الاسلام من اللباس‘‘ کے نام سے 1976میں ادارہ معاف اسلامی لاہور سے بھی شائع کیا۔
  18. ۔اشتہار الجہاد فی الاسلام ،ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ،جنوری 1931
  19. ۔تذکرہ سید مودودی، ج1، ص142
  20. ۔صابر کلوری، سید مودودی اور اقبال ، ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور ،سید مودودی نمبر(حصہ اول)،دسمبر1979، ص102 آبادشاہ پوری ،تاریخ جماعت اسلامی ،حصہ اول ،ادارہ معارف اسلامی ،لاہور، 1989، ص356
  21. ۔غلام محمد، چودھری ،تاریخ جماعت اسلامی ،تاسیسی پس منظر، ادارہ معارف اسلامی ،لاہور، 2019، ص59
  22. ۔خلیل احمدحامدی ، وثائق مودودی، ادارہ معارف اسلامی ،لاہور، 1984، ص83 تذکرہ سید مودودی، ص144 آبادشاہ پوری ، تاریخ جماعت اسلامی ، ج1، ص396
  23. ۔گیلانی، سید اسعد، ڈاکٹر، تاریخ جماعت اسلامی ، ادارہ معارف اسلامی ،لاہور، 1982ء،ص132 آبادشاہ پوری ، تاریخ جماعت اسلامی ،ج1، ص410
  24. ۔تذکرہ سید مودودی، ص258 آبادشاہ پوری ، تاریخ جماعت اسلامی ،ج1، ادارہ معارف اسلامی ،لاہور ،ص452
  25. ۔گیلانی، سید اسعد، ڈاکٹر،تاریخ جماعت اسلامی ،ادارہ معارف اسلامی، لاہور، 1982ء، ص165 غلام محمد ،چودھری، تاریخ جماعت اسلامی ،تاسیسی پس منظر، ص109
  26. ۔غلام محمد،چودھری، تاریخ جماعت اسلامی تاسیسی پس منظر ،ادارہ معارف اسلامی ،لاہور، 2019، ص151
  27. ۔ابوالآفاق صاحب ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ،عاصم نعمانی ’’تصوف و تعمیر سیرت‘‘ غوری ،عمرحیات خان، پروفیسر،اقبال اور مودودی ایک علمی وفکری مطالعہ ،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ،1981،ص285۔
  28. ۔خورشیداحمد، پروفیسر، مقدمہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان ،ج1، اسلامک پبلیکیشنز لمٹیڈ،لاہور، 1964ء، ص15
  29. ۔تحریک پاکستان اور علماء ،نظریہ پاکستان نمبر،چراغ راہ ،صفحہ نمبر232
  30. ۔ایضا،صفحہ نمبر233
  31. ۔لاہور کی ڈائری،ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ لاہور،9جون63ء
  32. ۔پیرزادہ شریف الدین ، پاکستان منزل بہ منزل ، گلڈ اشاعت گھر ،کراچی ،اگست1965، ص242
  33. ۔ ایضاً، ص244
  34. ۔ثروت، صولت ،مولانا مودودی کی تقاریر،حصہ اول، اسلامک پبلیکیشنز لمٹیڈ، لاہور، پاکستان، 1976ء، ص16
  35. ۔مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودی ،جلد اول ،ص206
  36. ۔ترجمان القرآن، لاہور،مئی 1938ء،اختر حجازی ، دارالاسلام ،ادارہ ترجمان القرآن ،لاہور،پاکستان، 1995ء،ص17
  37. ۔ثروت ،صولت، مولانا مودودی کی تقاریر، حصہ اول،ص17
  38. ۔غوری ، عمر حیات خان ،پروفیسر، اقبال اور مودودی ،ص271
  39. ۔حبیب احمد ،چودھری، تحریک پاکستان اور نیشلسٹ علماء، البیان ،لاہور، فروری 1966، ص705
  40. ۔ایچ،بی ،خان ،برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں علماءکا کردار، قومی ادارہ برائے تحقیق و ثقافت ، اسلام آباد، 1985، ص357
  41. ۔Qureshi, Ishtiaq, Husain, Ulema In Politics,Karachi, 1972.P.339
  42. ۔مودودی، ابوالاعلیٰ ،سید، تحریک آزادی ہند اور مسلمان ، ص449
  43. ۔ترجمان القرآ ن،جولائی،اکتوبر1944
  44. ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1946ء میں خود مسلم لیگ کیبنٹ مشن اسکیم کو قبول کر کے عملا اس بات کے لیے تیار ہو گئی تھی کہ پاکستان کے علاوہ بھی کسی دوسری تجویز پر عمل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس سے پوری مسلمان قوم کے مسئلہ کا حل نکل آئے ۔
  45. ۔مودودی، سیدابوالاعلیٰ ،تحریک آزادی ہند اور مسلمان ،اسلامک پبلیکشنز،لاہور،1946، ص21
  46. ۔سیاسی کشمکس حصہ سوم طبع ششم ،صفحہ 76،77
  47. ۔ مودودی، سید ابوالاعلیٰ ،تحریک آزادی ہند اور مسلمان، ص22
  48. ۔سہ روزہ کوثر،مورخہ5جولائی1947ء،ورسائل مسائل جلد اول ،صفحہ نمبر363
  49. ۔ایضا،صفحہ نمبر363
  50. ۔ تذکرہ سید مودودی، ص48
  51. ۔جماعت اسلامی کی دعوت، ترجمان القرآن جلد31،عدد5صفحہ4۔303
  52. ۔ابوالآفاق،سید ابوالاعلیٰ مودودی، سوانح،افکار تحریک ،ص141
  53. ۔پیش لفظ مولانا دریابادی ،اسلام کا سیاسی نظام از مولانا محمد اسحق سندیلوی ،مطبوعہ دارا لمصنفین اعظم گڑھ، ص64
  54. ۔ہفت روز(Thinker)مضمون(The Quid-e-Azam by Reminson)بابت27دسمبر1963ء
  55. ۔موودی ، سید،ابوالاعلیٰ تحریک آزادی ہند اور مسلمان ،جلد1،ص27
  56. ۔منشی ،عبدالرحمن ،خان ، سیرت اشرف، ادارہ نشر المعارف،ملتان ،ستمبر1956، ص55، سلیمان ندوی، سید ،علامہ ، یادرفتگاں ، مجلس نشریات اسلام، کراچی ، 1983، ص254
  57. ۔دریابادی،مولانا عبدالماجد،نقوش و تاثرات،ص23
  58. ۔ایضاً، ص210
  59. ۔فیوض الرحمن ،قاری ، مشاھیر علمائے دیوبند، ج1، المکتبہ العزیزیہ ،لاہور، 1976، ص69
  60. ۔احمد سعید،پروفیسر، مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی، المیزان ،لاہور، 2002، ص152
  61. ۔منشی،عبدالرحمن خان،معماران پاکستان ،ص196
  62. ۔ منشی،عبدالرحمن خان،معماران پاکستان ،ص198
  63. ۔ منشی،عبدالرحمن خان،سیرت اشرف، ص583، :چراغ،محمد علی،ص345
  64. ۔ایچ، بی ،خان ،ص352
  65. ۔الجمیعۃ،9ستمبر1938، ص3، عثمانی ،شبیر احمد، ہمارا پاکستان ، ص22
  66. ۔تھانوی،اشرف علی ، مولانا،الافاضات الیومیہ ،ج5،ص88
  67. ۔تھانوی،اشرف علی ،مولانا، ملفوظات اشرفیہ،ص88
  68. ۔منشی ،عبدالرحمن خان ، سیرت اشرف،ص613
  69. ۔تھانوی،اشرف علی مولانا، الافاضات الیومیہ،ج4،ص522، تعمیر پاکستان اور علما ء ربانی ، ص66
  70. ۔منشی ،عبدالرحمن ،سیرت اشرف، ص559، تعمیر پاکستان اور علماءربانی ، ص66
  71. ۔ایضا، ص70
  72. ۔تعمیر پاکستان اور علما ء ربانی ، ص92 منشی ،عبدالرحمن ،خان ،سیرت اشرف ،ادارہ نشر المعارف ،ملتان ،1956، ص564
  73. ۔منشی،عبدالرحمن خان، معمارا ن پاکستان ،ص207
  74. ۔حوالہ بالا ،ص209
  75. ۔عثمانی ،شبیر احمد،علامہ، روئیدادموتمر الانصار،دہلی،1328ھ
  76. ۔حصول پاکستان ،ص268
  77. ۔چراغ،محمد علی ،ص343:تھانوی ،اشرف علی،مولانا،ملفوظات اشرفیہ،ج1،ص211
  78. ۔چراغ،محمد علی،اکابرین تحریک پاکستان ،ص340
  79. ۔احمد ،سعید، پروفیسر، مولانا اشرف علی تھانوی او رتحریک آزادی، ص 153
  80. ۔ نوائے وقت ، 24جنوری 1946بحوالہ تحریک پاکستان اور نیشلسٹ علماء ،ص437
  81. ۔ایچ ، بی ،خان ، برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں علماء کا کردار، ص395
  82. ۔ جماعت اسلامی کی دعوت، تقریر مئی 1947، ترجمان القرآن ستمبر1948
  83. ۔غلام محمد چودھری، تاریخ جماعت اسلامی تاسیسی پس منظر، ص151
  84. ۔غلام محمد چودھری، تاریخ جماعت اسلامی تاسیسی پس منظر، ص156
  85. ۔غلام محمد چودھری ، تاریخ جماعت اسلامی،تاسیسی پس منظر، ص203
  86. ۔مولانا ظفراحمدانصاری ، ماہنامہ چراغ راہ ، نظریہ پاکستان نمبر ، ص241
  87. ۔غلام محمد چودھری، ص 209
  88. ۔غلام محمد چودھری، ص246