جدید قانونی تصورات پر مذہب اور اخلاق کا اثر: مغربی اور اسلامی تناظر میں ایک تقابلی و تنقیدی جائزہ
Warning: Page language "ur" overrides earlier page language "".
مجلہ | الایضاح |
عنوان | جدید قانونی تصورات پر مذہب اور اخلاق کا اثر: مغربی اور اسلامی تناظر میں ایک تقابلی و تنقیدی جائزہ |
انگریزی عنوان | The Effect of Religion and Ethics on Modern Legal Concepts: A Comparative and Critical Review in the West and Islamic Context
|
مصنف | الرحمن، حافظ حبیب |
جلد | 35 |
شمارہ | 2 |
سال | 2017 |
صفحات | 01-26 |
مکمل مقالہ | ![]() |
یو آر آیل | |
شکاگو 16 | الرحمن، حافظ حبیب۔ "جدید قانونی تصورات پر مذہب اور اخلاق کا اثر: مغربی اور اسلامی تناظر میں ایک تقابلی و تنقیدی جائزہ۔" الایضاح 35, شمارہ۔ 2 (2017)۔ |
Abstract
Authority is the centerpiece of the law as well as legal system. It cannot be properly understood without adequate understanding of the structure of authority that underlies it. The role of moral and religious values in the law has been a vital issue in classical as well as contemporary legal philosophy. Discussion about the theoretical foundation of the law remains a key issue in the modern legal thinking as a legal system is considered to have emerged from cultural contexts. Western legal systems are broadly grounded in to the Judo-Christian and Greco-Roman cultures. Though a fundamental change took place in the Western Europe as cultural traditions which affected the very nature of law both as a political institution and as an intellectual concept. The creation of modern legal systems was, in the first instance, a response to revolutionary change within the church and its relation with the secular authority. It led to bifurcation of social morality and religion in the modern law. Now most of the modern theories are based on this concept. The present paper presents a study of the origins of the Islamic law as well as the contemporary western legal thought in connection with religion and ethics. The conflict about moral and religious values reflects their code of life and concept of religions. In Islamic law authority-which is at once religious and moral is the will of the creator which is basic source of Islamic law, However, Fuqahᾱ differentiate between legal and moral values
تمہید:
کسی بھی قوم کا قانون اس کے تہذیبی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی تصورات کا عکاس ہوتا ہے۔ مذہب اور قانون سے تعلق کے حوالے سے مختلف قوموں کے قوانین میں جو جوہری اختلافات پائے جاتے ہیں ان کے اسباب میں سے اہم سبب اس قوم کا نظریہ حیات ہے۔ قانون اور نظریہ حیات کے درمیان ربط کلیدی اہمیت کا حامل ہے، پھر قانون اور نظریہ حیات کے درمیان ربط میں اساسی بحث اس قوم کا تصور مذہب ہے۔عہد قدیم میں مذہب اور قانون کا تعلق بہت گہرا تھا۔ مذہب، قانون اور اخلاق کا چولی دامن کا ساتھ تھا، لیکن بعد کے ادوار میں مذہب و اخلاق سے قانون کا رشتہ بتدریج کمزورہوتا گیا۔معاصر مغربی علماء قانون کا کہنا ہے کہ قانون کا مذہب و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب فرد کا ایک نجی معاملہ ہے جو خدا اور بندے کا تعلق بتاتا ہے جب کہ قانون انسان اور انسان کے درمیان تعلقات کا دائرہ کار متعین کرتا ہے.اس کے باوجود مغربی دنیا میں اب بھی یہ بحث کوئی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ آیا مذہب اور قانون کو ایک دوسرے سے جدا کیا جا سکتا ہے، یا یہ دونوں بڑی حد تک ایک دوسرے کے محتاج ہیں؟ مزید یہ کہ قانون کا اخلاقی رشتہ یکسر ختم کیا جا سکتا ہے یا اخلاق کے بغیر قانون کا وجود ناممکن ہے؟ مغربی مفکرین میں قانون کی فکری بنیادوں کے بارے میں شدید نوعیت کا تناقض پایا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ہر قابل ذکر مفکر اپنا الگ ہی نظریہ پیش کرتا ہے۔
اس موضوع پر جس انداز سے مغرب میں اظہار خیال کیا جاتا ہے ا س کا اندازہ درج ذیل عنوانات اور کام سے لگایا جا سکتا ہے۔ بینتھم (Bentham) نے اپنی کتاب "An Introduction to the Principles of Morals and Legislation" میں یہ بتایا ہے کہ قانون کا موضوع ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے بجائے ’’کیا ہے‘‘ قطع نظر اس کے کہ وہ جو موجود ہے وہ اچھا ہے یا بُرا۔ ایف۔ پولاک (F.Pollock)[1]کی کتاب"Essay in Jurisprudence and Ethics"قانون اور اخلاقیات کے تعلق پر ایک عمدہ بحث ہے۔ایچ۔ ایل۔ اے۔ ہارٹ نے اپنی کتاب"Law, Liberty, and Morality" جو ان کے تین خطبات کا مجموعہ ہے، میں قانون اور اخلاقیات کے تعلق کو موضوع بحث بنایا ہے۔بہرحال اکثریت ان علماء قانون کی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اب مذہب کا قانون پر کوئی نمایاں اثر باقی نہیں رہا ہے.[2]
عہد قدیم کا قانون:
جے سی سمتھ(J.C.Smith)اور ڈیوڈ این وئیسٹب(David N.Weisstub) اپنی ایک مشترکہ تالیف"The Western Idea of Law" میں عہد قدیم کے قانون کی سند اور جوا زکے حوالے سے لکھتے ہیں:
Law usually received its legitimacy in terms of a mythological derivation from God or the gods, or a King of divine origin. The law was often justified on the grounds that it directly or indirectly reflected the will of God or the gods.[3]
یعنی قانون اپنا جواز صرف اسی صورت حاصل کر تا تھا جب اس کی اساس منشاء خداوندی ہو تی تھی۔ بادشاہ کو منشاء الٰہی کا ترجمان اور نمائندہ تصور کیا جاتا تھا۔کہیں خود بادشاہ کو خدا کا درجہ دے دیا جاتا تھا اور کہیں اسے خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ قانون کی سند منشاء خداوندی کو تصور کیا جاتا تھا۔اس بات کا اعتراف تقریباً تمام مغربی علماء قانون کو ہے کہ مغربی قانون کے آغاز، ارتقاء اور نشونما میں مذہب کا کلیدی کردار رہا ہے:
The canon law, the law of the western or Catholic Church, has influenced the growth of English law in two ways: First it was the basis of many concepts which were formulated in the lay courts and as such is a primary source of other sources of law... The second, and more important, way in which canon law became a source of English law was by its application in the ecclesiastical courts. In this context canon law was a system of law wholly independent of the common law since the ecclesiastical courts were, during the middle ages, completely outside the control of the King"[4]
اس سے معلوم ہوا کہ یورپ میں باقاعدہ کلیسائی عدالتیں تھیں جن کا مستقل قانونی نظام تھا جو بادشاہ کے دائرہ کنٹرول سے بھی باہر تھیں۔ ۱۷۰۵ء میں کلیسائی جماعت کی تحریک کے بعد پوپ ہفتم(Pope Gregory VII) کو تمام یورپ پر مکمل طور پر قانونی اور مذہبی کنٹرول حاصل ہو گیا تھا اور اس لحاظ سے کلیسائی عدالتوں کو حتمی اختیارات حاصل تھے۔ مغربی علم قانون کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات ہارولڈ جے برمن(Harold J. Berman) نے "The origins of western legal science" کے عنوان کے تحت کہی ہے[5]۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کے بعد ہنری چہارم (Henry IV) نے مذہبی قیادت کے خلاف فوجی کارروائی کی جس کے نتیجہ میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا، بالآخر پوپ اور بادشاہ کے درمیان ۱۱۲۲ء میں ایک عارضی سمجھوتہ ہوا۔[6]مختلف مغربی علماء قانون نے اسرائیلی مذہب،عیسائی مذہب ،یونانی تہذیب اور رومی تہذیب کومغربی اصول قانون کی اساس قرار دیاہے۔[7]مختلف مذاہب مغربی قانون میں جس قدر جڑیں گہری کر چکے ہیں اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے کیا جا سکتا ہے:
"Western legal cultures are broadly grounded in two highly distinctive traditions: The Judeo-Christian and the Greco-Roman"[8]
مغربی اصول قانون کے نشووارتقاء پر لکھنے والے تمام مغربی دانشوروں نے اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے کہ عیسائی اور یہودی مذاہب کے ساتھ ساتھ یونانی او ر رومن تہذیب نے مغربی اصول قانون پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جس طرح مغرب میں سائنس اور مذہب کے کشمکش کی تاریخ بڑی طویل ہے، اسی طرح سیکولر قانون اور مذہب کے درمیان چپقلش بھی ایک طویل عرصہ پر محیط ہے۔[9]اس کشمکش کے نتیجہ میں کلیسا کا اقتدار بتدریج محدود ہوتے ہوتے بالآخر چرچ کے أمور تک محدود ہو کر رہ گیا۔[10]اہل مغرب کے ہاں مذہب اور قانون کے رشتہ کے بارے میں صدیوں سے شدید قسم کا اختلاف چلا آ رہا ہے۔ وہاں مذہب کے غلط نظریات اور اہل مذہب کے استحصالی رویہ کی وجہ سے پندرہویں صدی کے أواخر میں مذہب کے خلاف ایک شدید بغاوت پیدا ہو گئی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک وہاں کے بیشتر اہل فکر کا دماغ صرف اس ایک نقطہ پر کام کر رہا ہے کہ مذہب کو اجتماعی زندگی سے کیسے بے دخل کیا جائے اور اس کے لیے کیا کیا جواز فراہم کیے جائیں۔ انیسویں صدی کے آتے آتے لامذہبیت کو ایک طے شدہ نظریہ کی حیثیت حاصل ہو گئی اور مذہب کا رشتہ تمام اجتماعی اداروں اور عمرانی علوم سے منقطع ہو گیا۔[11]
انسان کے اندر اخلاقی حس ایک فطری چیزہے جس کی بنیاد پر وہ بعض صفات کو اچھا اور بعض کو بُرا تصور کرتا ہے[12]۔ دنیا ہمیشہ سے بعض صفات کے اچھے اور بعض کے بُرا ہونے پر متفق رہی ہے اور ان کا شعور فطرت انسانی میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اور ہر جگہ کچھ قدروں کو آفاقی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ یہ مغربی علماء قانون کی غیرمعمولی دلچسپی کا موضوع رہا ہے اور اس پر ہر قابل ذکر مفکر نے قلم اٹھایا ہے اور اس پر مستقل کتب لکھی ہیں مثلاً Value and the Law by G.L. Williams, Legal values and judicial decisions-making by weiler, The Value of Value Study of Law by R.W.M. Dais, Modern Ethic and the Law by F.S. Cohen, Law, اس نوع کی متعدد کتب ہیں۔ ایچ۔ ایل ۔ اے ہارٹ کے اس مقالہLiberty and Morality کو بھی قانون کی دنیا میں بڑی شہرت حاصل ہے۔قانون اور مذہب کے رشتہ کے حوالے سے چند نمایاں اور مقبول نظریات کا ذیل میں خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:
1-۔خالص قانون کا نظریہ (Pure Theory of Law) :
بہت سے مغربی علماء قانون علم قانون میں قانون اور انصاف کے باہمی تعلق، قانون کا دیگر معاشرتی علوم سے رشتہ، قانون فطرت اور دیگر قدرتی علوم سے تعلق، قانون کا مذہب اور اخلاق سے تعلق وغیرہ کا مطالعہ کرتے ہیں، لیکن کلسن[13] ایسا فلسفی ہے جو ان تمام رجحانات سے بغاوت کرتا ہے اور علم قانون کو انصاف، معاشرتی علوم، قدرتی علوم، مذہب اور اخلاق سب سے پاک کرنے کا خواہش مند ہے ۔اس کا خیال ہے کہ ماہرین قانون کو اپنے کام میں سائنٹیفک رہنا چاہیے۔ معروف مغربی قانونی مفکر ڈائس مذکورہ قانونی نظریہ کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:
"A theory of law must be free from ethics, politics, sociology, history, etc. it must, in other words, be 'pure".[14]
ایک دوسرا ماہر قانون لکھتا ہے:
"That all this is described as a 'pure' theory of law means that it is concerned slowly with that part of knowledge which deals with law, excluding from such knowledge everything which does not strictly belong to the subject Matter law. That is, it endeavours to free the science of Law from all foreign elements"[15]
کم و بیش کیلسن کے نظریہ قانون کا خلاصہ یہی بیان کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ "pure theory" کا عنوان خود بتاتا ہے کہ اس نظریہ میں مذہب کی گنجائش نہیں ہے۔ کیلسن نے سند قانون اور قانون کے جواز اور اساس کے لیے "Ground Norm" یا "Basic Norm" کی اصطلاح استعمال کی ہے اور ملک کے آئین کو اس کے لیے بطور مثال پیش کیا ہے۔[16]
1- حکمی نظریہ(Command Theory):
اس نظریے کا بانی جان آسٹن کو تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے نظریے کی اساس ہابس اور بینتھم(Bentham) کے افکار پر رکھی۔ آسٹن کے نزدیک قانون ایک حکم ہے جو فرمان روا اپنے ماتحتوں پر نافذ کرتا ہے۔ ڈاکٹر جارج وائٹ کراس پیٹن لکھتا ہے: ’’آسٹن کا مقصد قانون کو معاشرتی قواعد مثلاً رسم و رواج اور اخلاق سے علیحدہ کرنا تھا‘‘۔ لفظ "Command" پر زور دینے سے مقصد پورا ہو جاتاہے کیونکہ قواعد، آداب و اخلاق کوئی ایک شخص نافذ یا رائج نہیں کرتا۔اس نظریے کے مطابق قانون وہی ہے جو منشاء خداوندی کی بجائے منشاء حاکم کی نمائندگی کرتا ہو۔ اس طرح اقتدار اعلیٰ اور حاکمیت مطلقہ بھی حاکم وقت کی ہے۔ اور قانون کا سرچشمہ بھی وہی ہے، اس لحاظ سے یہ نظریہ قانون بھی مذہب اور قانون کی کلی علیحدگی کی اساس پر مبنی ہے۔ سرہنری مین اور اس کے ہم خیال مغربی[17]دانشوروں نے آسٹن کے نظریے پر شدید تنقید کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ یورپ کی مملکتو ں میں تو کیا مشرقی ممالک کی شخصی حکومتوں میں بھی اس نوع کا کوئی قانون ساز فرماں روا نہیں ملتا۔ ہر جگہ مقتدراعلیٰ کو قانون بناتے وقت لوگوں کے مذہبی عقائد اور معاشرتی رسم و رواج کا لحاظ کرنا پڑتا ہے، اس لیے ان لوگوں نے حکمی نظریے کے مقابلہ میں تاریخی نظریہ پیش کیا ہے۔
2۔ تاریخی نظریہ(The Historical School):
اس نظریے کو انیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی کے مصنف سیوین[18] (F.K.Von Savigny) اور انگریز قانون دان سرہنری مین(Sir Henry Maine)[19]کی تحریروں سے شہرت حاصل ہوئی۔ اس تصور قانون کے مطابق قانون کو فرمانروا کا حکم قرار دینا غلط ہے، کیونکہ قانون کی اساس تاریخ ہے اور اس کی بتدریج نشوونما ہوئی ہے[20]۔ اس مکتب فکر کا ایک مفکر لکھتا ہے:
A law grows with the growth and strengthens with the strength of the people, and finally dies away as the nation loses its nationality.[21]
اس مکتب فکر کے مطابق قانون کا سرچشمہ نہ تو حاکم کا حکم (Command) ہے، نہ عوام کے رسم و رواج، بلکہ اس کا سرچشمہ نیکی اور اچھائی کے وہ فطری احساسات ہیں جو ہر نسل میں موجود رہتے ہیں:
"Savigny rejected natural law. To him a legal system was part of the culture of a people. Law was not the result of an arbitrary act of Legislator but developed as a response to the impersonal powers to be found in the people's national spirit"[22]
اس نظریہ قانون کے مطابق ریاست کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ اسے تسلیم کرنااور نافذ کرنا ہے۔ قانون کا مطالعہ معاشرے کے مذہبی ،اخلاقی اور معاشی ماحول، تاریخی رجحانات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئےکرنا چاہیے۔[23]
3۔ عمرانی نظریہ قانون(The Sociological Theory of Law) :
عمرانی مکتب فکر علم قانون کے متعلق سب سے جدید نظریہ پیش کرتا ہے۔ دیوگی(Duguit) کریب(Krabbe) اور لاسکی(Laski) کو اس فکر کے نمائندے تصور کیا جاتا ہے۔[24]دیوگی کے نزدیک قانون اس دستور العمل کا نام ہے جس کی لوگ معاشرے میں رہ کر پابندی کرتے ہیں۔ وہ قانون کے حکمی تصور کو رد کرتا ہے۔ لاسکی کہتا ہے کہ لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ قانون کی اطاعت سزا کے خوف سے نہیں کی جاتی بلکہ یہ مبنی بر انصاف ہوتا ہے اس لیے اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ رسکوپاؤنڈ جسے اس فکر کو متعارف کرانے میں زیادہ شہرت حاصل ہے اس کا خیال ہے کہ قانون کے مقصد کے حوالے سے بیسویں صدی میں قانونی تصورات میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اب قانون کا مقصد منشاء عوام کے بجائے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل قرار دیا جا رہا ہے[25]۔یہ نظریہ بھی مغرب کی لادینی سوچ کا مظہر ہے کیونکہ اس نظریہ میں ’’انسانی خواہش‘‘ ہی سب سے بڑا بت ہے جس کی پرستش کی جا رہی ہے۔
4- قانون کا نظریہ منفعت(The Theory of Utilitarianism):
اس نظریہ کی اساس یہ اصول ہے:
"The greatest happiness of the greatest numberیعنی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خوشی بہم پہنچانا قانون کا مقصد ہے۔ اس نظریے کے مطابق قانون کا مذہب یا اخلاق سے کوئی رشتہ نہیں ہے کیونکہ یہ نظریہ بھی کسی خدائی ہدایت یا قانون کا قائل نہیں ہے۔[26]
2- قانون قدرت کا نظریہ:
قانون قدرت کو مختلف ادوار میں مختلف مفاہیم میں استعمال کیا گیا مثلاً اخلاقی قوانین، عقلی یا منطقی قوانین، آفاقی قوانین، خدا ئی قوانین، ابدی قوانین، عمومی قوانین وغیرہ۔قرون وسطیٰ میں مغرب کی قانونی فکر پر مذہب (مسیحیت) کا گہرا اثر تھا لیکن علمی بیداری کے بعد بتدریج مذہب کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور بالآخر اسے مذہبی اور اخلاقی قیود سے آزاد کر دیا۔ جان لاک اور روسو وغیرہ جو اٹھارویں صدی میں اس نظریے کے علمبردار تصور کیے جاتے تھے، وہ قانون فطرت سے مراد یہ لیتے ہیں کہ ہر فرد کو قدرتی اور پیدائشی حقوق حاصل ہیں۔وہ مغربی مفکرین جو قانونِ فطرت کو قدرتی قوانین کے مفہوم میں لیتے ہیں وہ ان سے مذہبی قوانین ہی مرا دلیتے ہیں۔ اس طرح وہ علماء قانون جو ان قوانین کو اخلاقی قوانین، آفاقی اور ابدی قوانین کے معنی میں استعمال کرتے ہیں وہ بھی ان قوانین کا تعلق کسی نہ کسی طرح مافوق الفطرت ہستی یا قوت سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح اس نظریے کے مطابق قانون کا مذہب اور اخلاق سے گہرا رشتہ پیدا ہو جاتا ہے، لیکن انیسویں صدی میں مذہب کی جگہ سیکولر عقل لے چکی ہے، اس لیے اب اس نظریے کے مطابق بھی مذہب کا قانون سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا ہے۔
قانون، مذہب اور اخلاق کے باہمی تعلق کا اسلامی تناظر:
اسلامی قانون پر مذہب اور اخلاق کے اثر کے حوالہ سے بحث کرنے سے پہلے اسلامی قانون کی حقیقت واضح کرنا ضروری ہے۔اسلامی قانون کو حکم شرعی سے تعبیر کیا جاتاہے ،بالفاظ دیگر اسے الٰہی قانون، خدائی قانون اور شرعی قوانین یا قانونِ شریعت جیسے الفاظ سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس تعبیر سے اسلامی قانون کی حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا حقیقی مصدر اللہ وحدہ لاشریک کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۔۔ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَہُ[27]
دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے؛
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ[28]
ان آیات کریمہ سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی قانون الٰہی قانون ہونے کی وجہ سے ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد ہے جسے مانے بغیر اس کا ایمان ہی درست نہیں۔ یہاں قانون اور عقیدہ کے درمیان ایک مضبوط تعلق پیدا ہو جاتاہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا۔ عقیدہ توحید یعنی لا اِلہ اِلا اللہ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ اللہ ہی حقیقی مالک، حاکم اور معبود برحق ہے۔ یہ اسلامی قانون کی اساس ہے کہ حاکم صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے، وہی تمام شرعی دلائل کا مرجع ہے اور وہی تمام اختیار ات کا سرچشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ[29] (حکم (قانون) دینے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی بندگی کی جائے، یہی درست طریقہ ہے)۔اسلامی قانون کی اساس وحی الہی ہے۔اسلامی قانون کی سب سے اوّلین اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی ایک یا چند انسانوں کا خود ساختہ قانون نہیں ہے، نہ ہی یہ کسی قبیلے کے قواعد و ضوابط کا مجموعہ ہے جو مرور ایام سے ترقی کرتے گئے اور نہ یہ کسی ابتدائی معاشرے کے ان رسوم کا مجموعہ ہے جسے بعد میں مدون کر لیا گیا ہے بلکہ اسے خود حاکم حقیقی نے انتہائی محفوظ طریقے سے اپنی آخری اور مکمل شکل میں نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل فرمایا: یہ اپنا تعارف ان الفاظ میں کراتا ہے:
’وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ،عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ ،بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ ‘‘[30]
(اور یہ قانون) رب العالمین کا نازل کردہ ہے، اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے، آپؐ کے قلب اطہر پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ بھی ڈرانے والوں میں سے ہوں اور یہ پہلی امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی ہے۔‘‘
جوہری فرق: دیگر قوا نین اور اسلامی قانون میں یہ جوہری فرق ہے کہ شرعی قوانین من جانب اللہ ہیں جبکہ دیگر انسانی قوانین کا سرچشمہ خود انسان ہے۔ آیت مذکورہ میں یہی فرق واضح کیا گیا ہے۔
تمام آسمانی شرائع کا ماخذ جس میں اسلامی شریعت بھی داخل ہے ایک ہے کیونکہ ان شرائع کونازل کرنے والی اور انہیں بنانے والی ہستی ایک ہی ہے۔ رسولوں کا کام تو صرف ان شرائع کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ ‘ (اور یہ (احکام)پہلی کتابوں میں بھی ہیں)میں اسی حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے۔دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ[31]
’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جس کا نوحؑ کو حکم دیا تھا۔ اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا حکم ابراہیمؑ اور موسیٰ ؑ کو دیا تھا، یہ کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا‘‘
تمام انبیاء اور ملل سماویہ کا دین ایک ہی رہا ہے البتہ ہرأمت کو اس کے مخصوص ماحول اور مخصوص استعدادکے مطابق خاص قوانین اور ہدایات دیے گئے تھے:’’لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا‘‘[32]۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت (قوانین) اور راہ تجویز کیا ہے۔‘‘
لفظ شریعت سے بھی اللہ کے شارع اور قانون ساز ہونے کا ثبوت ملتا ہے کہ تمام آسمانی شرائع کا مصدر اللہ کی ذات ہے۔اسلامی قانون وحی الٰہی پر مبنی ہےاور یہ گزشتہ شرائع سے ماخوذ نہیں ہے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتے تھے:قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي[33]"کہہ دیجئے! میں تو صرف اسی (حکم) کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف میرے رب کی جانب سے وحی کے ذریعہ آتا ہے‘‘۔
منشا الٰہی کے معلوم کرنے کے سب سے بڑا ذریعہ وحی الٰہی ہے خواہ وہ وحی جلی ہو یا خفی، یعنی قرآن کی صورت میں ہو یا سنت رسول کی شکل میں۔ علماء اصول نے حکم شرعی کی جو تعریف کی ہے اس سے اسلامی قانون کی نوعیت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے:’’الحكم خطاب الله القديم المتعلق بأفعال المكلفين بالاقتضاء أو التخيير [34]۔۔۔الخ میں ’’خطاب اللہ‘‘ سے مراد: کلامہ مباشرۃ وھوالقرآن، أو بالواسطۃ و ھو مایرجع الی کلامہ من سنۃ، أو اجماع و سائرالأدلۃ الشرعیۃ یعنی قانون الٰہی اللہ کا خطاب ہے جو خود کلام الٰہی (وحی) سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ کلام الٰہی کبھی بلاواسطہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید ہے اور کبھی بالواسطہ جیسا کہ سنت رسول اور دیگر شرعی دلائل یعنی سنت، اجماع، قیاس وغیرہ۔یہ بالواسطہ کلام الٰہی کی صورتیں ہیں کیونکہ بلاواسطہ کلام الٰہی نے اس بالواسطہ صورت کو بھی حجت اور دلیل قرار دیا ہے، البتہ اسلامی قانون میں سند مذہب کے حوالے سے حاکمیت کی بحث کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے سند مذہب کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے پہلے اسلام کے تصور حاکمیت کو زیربحث لانا پڑے گا۔
حاکمیت الٰہی :
سیاسی اصطلاح میں حاکمیت سے مراداقتدار اعلیٰ اور اقتدار مطلق ہے۔ مقتدراعلیٰ وہ ہے جس کا ارادہ اور اس کی منشاء قانون کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس کا قانون بالاتر قانون ہوتاہے۔ شرعی اصطلاح میں اسے حاکمیت تشریعیۃ [35]کہا جاتاہے۔قرآن مقدس کی متعدد آیات[36]میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت مطلقہ کا ذکر ہے یعنی اللہ وحدہ لاشریک ہی حاکم[37]، مطاع[38]امرونہی کامختار[39]، شارع (واضع قانون)، جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی قیود و حدود طے کرنے والا ہے[40]۔ درج ذیل آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو ان میں کسی بھی صاحب ایمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے اور اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا۔[41] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی وضاحت کر دی کہ قرآن مجید پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے حلال اور حرام کی طے کردہ حدود کو تسلیم کیا جائے: ارشاد نبوی ہے:
’’الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ‘‘[42]
’’حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے،اور جس سے خاموشی اختیار کی ہے وہ معافی والے أمور میں سے ہے۔‘‘
حاصل بحث یہ ہے کہ اسلامی قانون میں مذہب اور قانون کو الگ الگ خانوںمیں تقسیم نہیں کیا جا سکتا بلکہ مذہب کی سند کے بغیر قانون اپنا جواز کھو دیتا ہے۔
قانون اور اخلاق کا باہمی تعلق:
قانون اور اخلاق کا تعلق علم قانون کی ایک اساسی بحث ہےجس میں قانون کا اخلاق سے ربط و تعلق، قانون پر اخلاق کے اثرات اور قانون سازی میں اخلاق کے عمل دخل سے بحث کی جاتی ہے۔ مذہب کی طرح اخلاق کا قانون سے رشتہ معلوم کرنے کے لیے پہلے اس قوم کے نظریہ حیات، تصور کائنات اور فلسفہ اخلاق کا گہری نظر سے جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے تاکہ اخلاق کی پشت پر جو قوتیں کارفرما ہیں ان کے بارے میں اس قوم کا طرزِعمل اور رویہ معلوم کیا جا سکے۔
مغربی قانون میں اخلاق کا قانون سے تعلق :
جہاں تک مغربی قانون کا تعلق ہے کہ قانون پر مغربی اخلاقیات اور تہذیب و ثقافت کے کیا اثرات ہیں، اس کے بارے میں درج ذیل اقتباس ہی کافی ہے:
Western Legal Cultures are broadly grounded in two highly distinctive traditions: The Judeo-Christian and Greco-Roman. --- The many attempts of Philosophers and Jurists to unite moral content with scientific syllogism reveal both the strength and weakness of western jurisprudence.[43]
بلکہ دنیا کے جتنے بھی قانونی نظام ہیں، سب کی بنیادیں ان کے تہذیبی افکار، نظریہ حیات اور نظام اخلاق میں پیوست ہیں:
Legal systems emerge from cultural contexts and, depending on the period of history and the specific set of social relations, law codes and legal regulations assume distinctive forms.[44]
لیکن مغرب میں مذہب (مسیحیت) کی اصلاحات کے بعد تہذیب جدید کی قانونی فکر نے اہل مغرب کو قانون کو مذہب اور اخلاقیات سے الگ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تقریباً تمام جدید قانونی نظریات میں اخلاق کو بطور سند قانون تسلیم نہیں کیا جاتا، ڈاکٹر منظور احمد لکھتے ہیں:
The History of the west does not present a very helpful guide. Reformation of religion in Christianity and eventual development of protestant ethics led to bifurcation of social morality and religion in the development of modern law. Law in the west, now has, hardly any relationship with morality especially with the morality enunciated by religion.[45]
تصور قانون کے مباحث میں جن نظریات کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے ان میں کیلسن، آسٹن اور ایسے ہی بہت سے اثباتیت پسند(positivists) مفکرین قانون نے قوت نافذہ ہی کو قانون کی سند قرار دے کراس کے اخلاقی پہلو کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے، کیونکہ positive law وہ قانون ہے جس کا مذہب یا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا[46]۔ کیلسن کا خالص قانون کا نظریہ (pure theory of law) قانون کو ہر قسم کی اخلاقی، مذہبی اور نظریاتی آلودگیوں سے پاک کرنے کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتاہے[47]۔ رسکو پاؤنڈ اور عمرانی نظریہ قانون کے دیگر علمبرداروں کا معاشرتی اسلوب تحقیق، عمرانی طرز مطالعہ، اخلاقی اضافیت کے تصورات وغیرہ کسی نظریہ یا اصول پر مبنی نہیں ہیں ۔انہیں صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ قانون کی دنیا میں قانون کے نام پر عملاً کیا ہو رہا ہے جسے وہ "Law in action" کے عنوان سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس تصور قانون میں بھی اخلاق کو قانون کی سند تسلیم نہیں کیا جاتا۔ قانون کی نوعیت، اصلیت اور سند کے لحاظ سے ان کا دعویٰ یہ ہے کہ انہیں انسانوں کے رویوں اور ان کے حسن و قبح سے بحث نہیں ہے بلکہ وہ موجود قانونی رویوں کا معروضی اور غیرجانبدارانہ انداز کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس طرح عمرانی مکتب فکر کے تمام نئے رجحانات میں اخلاق کی بطور سند قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے[48]۔ایچ۔ ایل۔ اے۔ ہارٹ نے اپنی کتاب"Law, Liberty, and Morality" میں قانون اور اخلاقیات کے تعلق کو موضوع بحث بنایا ہے، وہ نتیجہ بحث میں لکھتا ہے:
"I have form the beginning assumed that anyone who raises, or is willing to debate, the question whether it is justifiable to enforce morality, accepts the view that actual institutions of any society, including its positive morality, are open to criticism.[49]
مغرب کی جدید تہذیب نے ایک طرف انفرادی اخلاق(Individual Morality) کو جنم دیا تو دوسری جانب سیاسی اخلاق (Political Morality) یا قانون وجود میں آیا، گو کہ دونوں کا مقصد یہ ہے کہ انسان ایک اچھی، معیاری اور پاکیزہ زندگی گزار سکے، لیکن اصل قانون اب صرف حکومت کے طور طریقوں اور قانون کے بنیادی اصولوں سے بحث کرتا ہے۔ وہ یہ بتاتا ہے کہ فرد و ریاست اور ایک فرد کا دوسرے فرد سے کیا تعلق ہے جبکہ اخلاقیات کا تعلق ضمیر سے ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر قانون اخلاقیات کے معیار پر بھی پورا اترے۔ اخلاقی قواعد کی پابندی معاشرے پر عائد ہوتی ہے جبکہ قوانین اور حقوق و فرائض کی حفاظت اور احترام کرانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔[50]بعض مصنفین قانون، اخلاقیات اور اثباتی اخلاقیات کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کی حدود و قیود کا علیحدہ سے تعین کرتے ہیں[51]۔+مغربی دانشوروں کے ہاں ایک الجھن یہ بھی ہے کہ وہ خود بھی ’’اخلاقیات‘‘ کی حدود و قیود طے کرنے اور نوعیت معلوم کرنے سے قاصر ہیں۔ معروف ماہر قانون اے۔ کے بروہی ان کی اسی مشکل کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
And those that have attempted to define it and expound its meaning have written ponderous volumes and at the end of their exercise they have virtually admitted with sand sincerity that although we all feel that we know what is meant by the word "Moral or "Morality", it is difficult to present a satisfactory account of what it means in the variety of contexts in which we use that term.[52]
حقیقت یہ ہے کہ جب قانون کے دائرے سے مذہب کو بے دخل کر دیا جائے تو اخلاق کی سند خود بخود مجروح ہو جاتی ہے، پھر یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اخلاق کی اساس کیا ہے، اس کا معیار کیا ہے، کس قسم کے امور اخلاقیات کے دائرے میں آتے ہیں اور کس قسم کے اس دائرے سے خارج ہیں۔ یہ تمام بحث ایسی ہے کہ جس کا مذہب سے اساسی تعلق ہے۔ ہیکنسن([53](Knud Haakonssen)اپنی کتاب"Natural Law and Moral Philosophy" میں "The Basis for Authority" کے تحت لکھتا ہے کہ انصاف مہیا کرنے کے لیے جو قوانین وضع کیے گئے ہیں یہ سند (Authority) کے لیے اساس فراہم کرتے ہیں اور لوگ بالعموم حکومتی اداروں سے انصاف کے حصول کی امیدکرتے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے
"What is the basis for the authority of Government to administer justice or to do anything else?"
مصنف اس کا جواب معروف مغربی دانشور ہیوم(David Hume) کی زبان میں دیتا ہے کہ قدامت پسند نقطہ نظر کے مطابق حکومت کے پاس اس اتھارٹی کی اساس سماج کو ورثہ میں ملا ہوا خدائی حق(Divine right) [54]ہے، لیکن وہ اس تصور کو رد کرتا ہے۔
David Hume believed that most of the views about society and politics prevalent in his day had roots in one or another of two species of false religion: Superstition and Enthusiasm.[55]
کیلسن قانون اور اخلاقیات کو دو الگ الگ نظام قرار دیتا ہے۔ ایک ماہر قانون یہ طے کرتے ہوئے کہ قانون کیا ہے؟ یہ نہیں دیکھتا کہ اس بارے میں اخلاقی مؤقف کیا ہے، اور ایک ماہر اخلاقیات اخلاق کی حدود و ماہیئت پر بحث کرتے یہ بات زیر غور نہیں لائے گا کہ اس حوالے سے قانون موضوعہ (positive law) کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں مستقل اور الگ الگ اقدار پر مشتمل نظام ہیں[56]کیلسن کے خالص نظریہ قانون میں اخلاق کی قطعاً گنجائش نہیں ہے.مغربی قانون اور اخلاقیات میں باہم تعلق کے حوالے سے چند معروف معاصر قانونی نظریات کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جس سے مغربی دنیاکے عصری رجحانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جدید قانونی واقعیت پسندی[57] (Modern Legal Realism) :امریکی عینیت یا واقعیت پسندی کے علمبردار جسٹس ہومز(Holmes) [58]کا نقطہ نظریہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ قانون کیا ہے، تو اسے ایک بدحال آدمی کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ جسے صرف اس بات کی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ اگر اس موقع پر وہ کچھ مخصوص طرزعمل اختیار کرے گا تو اس کے ساتھ کیا ہو گا[59]۔ڈائس نے ہومزکا نظریہ قانون اور اخلاق سے قانون کا تعلق بھی واضح الفاظ میں بیان کیا ہے:
The statement that law is only what courts do is iconoclastic, and suggests that ethics, ideals and even rules should be put on one side.[60]
جسٹس ہومز اخلاقیات و نظریات ہی نہیں بلکہ منظم مجموعہ قوانین کو بھی نظرانداز کرتا ہے ۔اس کے نزدیک قانون کا واحد معیار یہ ہے کہ آج کا قانون کیا ہے اور آج کس قسم کے قانون کی ضرورت ہے، قطع نظر اس کے وہ اخلاق و مذہب کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ۔عدالتیں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جو فیصلے دے رہی ہیں بس وہی قانون ہے[61]۔سویڈن میں اسی تحریک کے بانی ہیگرسٹروم (Hagerstrom) کے نزدیک دنیا میں اچھائی یا برائی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی:
There are no such things as 'goodness' and 'badness' in the world"[62].
اثباتیت(Positivism): اثباتی نظریہ قانون کے مطابق قانون کی جو تعریف کی جاتی ہے اس میں صراحتاً اخلاق اور قانون کے الگ الگ دائرہ کار کی بحث موجود ہے مثلاً
The law as it is actually laid down; positum has to be kept separate from the law that ought to be.[63]
یعنی اس نظریہ قانون کے مطابق قانون وہ ہے جو ’’موجود ہے‘‘ اور اس کو ’’ہونا چاہیے‘‘ سے الگ رکھا جاناچاہیے۔ اس نظریے کے مطابق متعدد علماء قانون نے 'is' اور 'ought' اور separation of law and morals کے موضوع پر لکھا ہے۔ اس بحث کا مرکزی نقطہ ہی یہ ہے کہ قانون کا اخلاقیات کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس کے علاوہ دیگر قانونی نظریات جن میں تجرباتی یا سائنسی نظریہ قانون، فلسفیانہ نظریہ قانون اور عمرانیاتی نظریہ قانون کو زیادہ شہرت حاصل ہے، میں اخلاق اور قانون کے باہم تعلق کے حوالے سے تفصیلی مباحث موجود ہیں۔لیکن سب میں ’’قدر مشترک‘‘ یہی ہے کہ قانون کا اخلاق سے کوئی تعلق یا رشتہ موجود نہیں ہے۔
3- اسلامی قانون میں اخلاق کا قانون سے تعلق :
اسلام ایک ضابطہ حیات ہے جس کے تمام شعبےایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ اسلامی قانون اور اسلام کے نظام اخلاق میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلامی قانون کا بنیادی مقصد ہی اسلامی اخلاق و اقدار کا فروغ ہے۔ یہاں قانون اس وقت جواز حاصل کرتاہے جب وحی الٰہی سے ہم آہنگ ہو۔ اسلامی قانون اور اخلاق کے باہمی تعلق کا اندازہ ان تعریفات سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو صدر اوّل کے فقہاء نے کی ہیں اور اس کے بعد متأخرین فقہاء کے ہاں اس کے مفہوم میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں[64]۔
متقدمین فقہاء کے ہاں فقہ کا دائرہ بہت وسیع تھا اور اس میں تمام دینی علوم شامل تھے۔ مثلاً فقہ کی یہ تعریف ’’وَالْفِقْهُ مَعْرِفَةُ النَّفْسِ مَا لَهَا وَمَا عَلَيْهَا‘‘[65](فقہ ان چیزوں کی معرفت ہے جو فائدہ پہنچائیں اور وہ جو نقصان پہنچائیں)۔ اس تعریف کے اجزائے ترکیبی کا تجزیہ کرنے سے بھی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ فقہ خیروشر، اچھائی و برائی اور نیکی و بدی کو جاننے کا ذریعہ ہے، یعنی ہر وہ چیز جو دنیا اور آخرت میں انسان کے لیے فائدہ مند ہے اس کی معرفت اور ہر وہ چیز جو دنیا اور آخرت کے اعتبار سے ضرر رساں ہے اس کا علم فقہ یعنی اسلامی قانون کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔اسلامی علوم و فنون کی الگ الگ تدوین تک فقہ کے اسی مفہوم کو پذیرائی حاصل رہی[66]، لیکن جب تدوین کا آغاز ہوا تو عقائد اور اخلاقیات کو فقہ کے دائرہ سے الگ کردیا گیا اور فقہ کی حدود ظاہری احکام و مسائل تک محدود کر دی گئیں۔اگرچہ امام غزالی اور بعض دیگر علماء اصول نے فقہ کے مفہوم میں اس تنگی کو پسندنہیں کیا لیکن عملاً فقہ کی مباحث عقائد اور اخلاقیات سے الگ ہو گئیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا متاخرین علماء قانون نے اس طرح فقہ کو محدود کر کے اسلامی قانون کا رشتہ اخلاقیات سے منقطع کر دیا ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے، لیکن اسلامی قانون کے مزاج، نوعیت اور منشاء کو مدنظر رکھ کر اس کا جواب تلاش کیا جائے تو اس میں زیادہ الجھن پیش نہیں آتی۔ البتہ یہاں موضوع بحث ’’اسلامی قانون میں اخلاق بطور سند قانون‘‘ ہے۔ یعنی محض اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو بنیاد بنا کر قاضی کسی کے حق کا تعیین کرنے میں قانونی جواز رکھتا ہے یا نہیں؟ یہاں اس نکتہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
اسلامی قانون میں اخلاق بطور سند:
اسلامی قانون کے دو اساسی مآخذ سے جو احکام مستنبط کیے جاتے ہیں ان سب کا درجہ اور مقام و مرتبہ ایک جیسا نہیں ہے بلکہ بعض کا تعلق کسی چیز کی حلت و حرمت یا وجوب و ممانعت سے ہے، جبکہ بعض باتیں بطور نصیحت ارشاد فرمائی ہیں اور سیاق و سباق سے ہمیں مکارم اخلاق کا سبق ملتا ہے۔ قرآن مقدس کی چھ ہزار اور چند سو آیات میں سے بمشکل چند سو آیات ہیں جو براہ راست فقہی احکام (شرعی قوانین) پر مشتمل ہیں۔ بیشتر آیات عقائد، اخلاقیات، نصائح اور قصص پر مشتمل ہیں اور ان کا براہ راست فقہی احکام سے تعلق نہیں[67]۔ اس طرح تقریباً پچاس ہزار احادیث کے ذخیرہ میں سے احادیث احکام تین ہزار کے قریب ہیں۔ نصوص کی یہ تقسیم فقہ کی حدود و قیود کے تعین میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے کیونکہ فقہ کی معروف تعریف کے مطابق یہ شریعت کا وہ حصہ ہے جو انسان کے ظاہری اعمال و افعال کو منضبط کرتا ہے۔اخلاقی قواعد و ضوابط اور تزکیہ و احسان شریعت کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن یہ فقہ کے دائرہ کار میں نہیں آتا[68]۔ مزید کہ اسلامی قانون کی حقیقت و ماہیئت کا علم ’’حکم شرعی‘‘ کی ماہیئت کو جاننے سے ہو جاتا ہے۔ اس تعریف ’’خطاب الله تعالیٰ القدیم المتعلق بأفعال المکلفین بالاقتضاء أوالتخییر‘‘[69]’ میں’أفعال المکلفین‘‘ کے الفاظ ’’اخلاقیات‘‘ کو اسلامی قانون کے دائرہ سے خارج کر دیتے ہیں۔ بعض معاصر علماء اصول نے بھی فقہ اور شریعت کے باہمی تعلق کو واضح کرتے ہوئے فقہ کی حدود و قیود پر روشنی ڈالی ہے: ’’أن الشریعة الاسلامیة تشتمل علی جمیع الاحکام الشرعیة المتعلقة بالعقیدۃ أو الأخلاق أوالعبادات أوالمعاملات۔ اما الفقة فلا یعنی الا بالاحکام العملیة ای احکام العبادات والمعاملات‘‘[70]معلوم ہوا کہ شریعت میں تو عموم ہے لیکن فقہ کا دائرہ عبادات اور معاملات تک محدود ہے۔ تاریخ التشریع الاسلامی کے مؤلفین نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ فقہ کے دائرہ کار میں یہ تنگی پہلی مرتبہ عباسی دور سے شروع ہوئی، حالانکہ اس سے قبل فقہ، شریعت اور دین کے الفاظ قریب قریب مترادف بولے جاتے تھے جیسا کہ امام ابو حنیفہؒ کی تعریف سے واضح ہے[71]۔ لیکن بعد کے ادوار میں یہی متاخرین علماء اصول کی تعریف اختیار کر لی گئی: ’’و خص الفقه بأحکام العبادات والمعاملات دون سواها، وأطلق علی الاحکام الاخلاقیة علم التصوف و علی الاحکام المتعلقة بالعقیدۃ علم الکلام أو علم التوحید‘‘[72]معلوم ہوا کہ علم الاخلاق مستقل علم ہے جس کی شریعت میں غیرمعمولی اہمیت ہونے کے باوجود وہ فقہ یا اسلامی قانون کے دائرہ میں نہیں آتا۔ احادیث کی تشریح کرتے ہوئے شراح نے اس اصول کو ملحوظ رکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کون سا حکم واجب کے درجہ میں ہے اور کون سا محض اخلاقی نوعیت کا ہے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’وَلاَيَبِعِ الرجل عَلَى بَيْعِ أخِيهِ ، وَلايَخْطبُ عَلَى خِطْبَة أخِيهِ ‘‘[73] ’’اور کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے‘‘۔اب جمہور فقہاء کے ہاں یہ اخلاقی نوعیت کا حکم ہے اور کسی نے سودے پر سودا کر لیا یا پیغام نکاح پر دوسرا پیغام نکاح بھیج دیا تو یہ بیع یا نکاح ناجائز نہیں ہو گا جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
’’وذهب الجمهور الی صحة البیع المذکور مع تاثیم فاعله وعندالمالکیة والحنابلة فی فسادہ روایتان‘‘[74] معلوم ہوا کہ جمہور فقہاء نے اسے اخلاقی تعلیم پر محمول کیا ہے اس لیے بیع تو درست ہے تاہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہ گارہو گا۔ یہ وہ بنیادی فرق ہے جو اخلاقی اور قانونی نوعیت کے احکام میں کیا جاتاہے کہ قانونی نوعیت کے احکام میں قاضی کی عدالت میں بھی اس حکم کی سند پر مواخذہ کیا جا سکتا ہے لیکن اخلاقی احکام کی خلاف ورزی پر دنیا میں قاضی کی عدالت میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی لیکن آخرت میں پکڑ ہو گی۔اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ اسلامی قانون میں اخلاق اور قانون کا گہرا رشتہ ہونے کے باوجود اخلاق کو بطور سند (Authority) کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
4۔ اسلامی اور مغربی نقطہ ہائے نگاہ کا تقابل:
- مسیحیت نے زندگی کو دو بڑے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے کہ ’’دنیاوی اقتدار قیصر کے لیے ہے اور روحانی اقتدار اللہ کے لیے‘‘۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔ ’’جو حصہ قیصر کا ہے وہ قیصر کو دے دو، اور جو اللہ کا ہے وہ اللہ کو دے دو‘‘۔
- مغرب کے تصور مذہب کے مطابق سیکولر نظام حکومت کا تصور مسیحی فکر سے ہم آہنگ ہے، کیونکہ دونوں کا دائرۂ مختلف ہے۔
- فکراسلامی ایسی کسی قسم کی تقسیم سے ناآشنا ہے جس میں زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر کے اللہ اور قیصر کے الگ الگ حصے کردیے ہوں بلکہ یہاں حکم یہ ہے ’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً ‘‘[75]اسلام میں تصور مذہب صرف مسجد اور چند مراسم عبودیت بجا لانے تک محدود نہیں ہے بلکہ شریعت اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور یہاں دین و دنیا یا دنیاوی اقتدار اور روحانی اقتدار میں مکمل وحدت پائی جاتی ہے۔ اسلام میں اصل حاکمیت صرف اللہ رب العزت کی ہے اورقانون سازی کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے۔ حاکم وقت کی حیثیت اس کے نائب اور خلیفہ کی ہے۔
- مسیحی تعلقات صرف حضرت عیسیٰ ؑ کے مواعظ و ارشادات پر مشتمل ہیں جو محض روحانی اور اخلاقی نوعیت کی ہدایات ہیں، باقی عملی زندگی سے متعلق تفصیلی قوانین موجود نہیں ہیں جن کی اساس پر معاشرے میں لوگوں کے تعلقات کو منظم کیا جا سکے، پروفیسر امری ریفر اپنی کتاب میں مسیحیت کی ناکامی کا تجزیہ ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مسیحیت انسان کے نفس میں سرایت کر جانے اور اس میں اخلاقی تعلیمات سمو دینے سے قاصر رہی ہے۔ مسیحیت کو صرف اتنی سی کامیابی ہوئی ہے کہ وہ صرف ظاہری اخلاق کا ایک ہلکا سا خول چڑھا پائی اور تھوڑا سا رنگ تہذیب کا پیدا کیا جو بیسویں صدی کے اضطرابات کا سامنا کرتے ہی پارہ پارہ ہو گیا۔
مسیحیت کے برعکس اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس نے زندگی کے بعض شعبوں مثلاً عائلی قوانین کے بارے میں تو تفصیلی قوانین دیے ہیں اور بعض شعبوں مثلاً اسلام کے نظام حکومت اور نظام معیشت و سیاست سے متعلق اصولی ہدایات دی ہیں جن کی روشنی میں تفصیلی قوانین مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے مسیحیت کے برعکس اجتماعی زندگی سے متعلق کسی قسم کا کوئی خلاء محسوس نہیں ہوتا جسے پُر کرنے میں کوئی الجھن پیش آتی ہو۔ ہر شعبے کی فکری بنیادیں موجود ہیں جس پر اس کا پورا ڈھانچہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ زمان و مکان کی تبدیلی سے ان جزئیات میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے[76]۔
- مغرب میں کلیسا اور اہل سائنس کی کشمکش کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ یورپ میں ایک عرصہ تک مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں[77]، جس کی بنیادی وجوہات مسیحیت کی تحریف شدہ شکل، مذہبی عقائد میں مختلف ادوار کے فلسفیانہ افکار کو داخل کر کے انہیں ایمانیات کا جزو تصور کرنا اور تحریف شدہ مسیحی عقائد کا خلاف عقل ہونا[78]وغیرہ تھیں۔ لیکن جب سائنسی انقلاب اور علمی نشأۃ ثانیہ سے قدیم مذہبی اور سائنسی تصورات منہدم ہونے لگے تو اہل کلیسا نے اسے مذہب پر حملہ تصور کیا۔حالانکہ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی زیادہ تر ذمہ داری ان علماء مذہب پر عائد ہوتی تھی جنہوں نے ہر قسم کے قدیم فلسفیانہ نظریات اور سائنسی مفروضات کو عقائد کی فہرست میں شامل کر کے اپنے دین کا جزولاینفک تصور کر لیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اہل مذہب کو پے در پے شکست ہوئی اور اجتماعی زندگی سے ان کا اقتدار چھین کر انہیں صرف چرچ کے امور تک محدود کر دیا گیا۔ اس طرح ریاست اور مذہب اور قانون و مذہب کا رشتہ منقطع ہو گیا[79]۔اسلام علم اور سائنس کو شر یا ایمان کے منافی تصور نہیں کرتا، بلکہ انسان سائنسی تحقیق و تفتیش کے بعد جن نئے نئے خزانوں کا کھوج لگاتا ہے اسے اس کے رحیم و شفیق آقا کی بے پایاں رحمت و شفقت کا مظہر قرار دیتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کائنات کی بیشمار قوتیں دن رات انسان کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔اسرائیلیات اور عیسائیت کے نیم پختہ اور غلط نظریات و افکار کے برعکس اسلام یہ چاہتا ہے کہ اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی کائنات اور حیات سے متعلق زیادہ سے زیادہ غوروفکر کرے،اس کا علم حاصل کرے اور قدرت کے سربستہ راز معلوم کرے، کیونکہ اسلام عقل انسانی اورمذہب یا سائنس اور مذہب کے مابین کسی مخاصمت کا قائل نہیں بلکہ اس کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسلام روحانی اور مادی، معاشرتی اور انسانی قوتوں میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
حاصل بحث:
تمام قدیم تہذیبوں اور معاشروں میں مذہب اور قانون ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ تھے۔ بیشتر رسوم اور قوانین کا سرچشمہ مذہبی احکام تھے، بلکہ زندگی کاہر طرزعمل، رویہ اور شعبہ مذہب سے گہرا اثر قبول کرتا تھا۔ جب انہی رسوم کو ریاست نے تسلیم کیا تو انہیں قانون کا درجہ حاصل ہو گیا، لیکن مغرب میں جہاں دیگر اجتماعی اداروں اور ریاست سے مذہب کو بتدریج بے دخل کیا گیا وہاں قانون سے بھی آہستہ آہستہ اس کا رشتہ کمزور ہوتا گیا اور بالآخر لادینی ریاست (Secular state) کے تصور نے مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا۔ مذہب اور اہل مذہب مسلسل شکست سے دوچار تھے جبکہ سائنس اور عقلیات کے علمبرداروں کے نظریات کو قبولیت عامہ حاصل ہو رہی تھی۔ مغربی علماء قانون بھی اس کشمکش کا حصہ تھے، انہوں نے قانونی اثباتیت(Legal Positivism) اور قانونی عینیت(Legal Realism) جیسے نظریات کو پروان چڑھایا۔ مغربی عینیت پسندی اور واقعیت پسندی میں اہم وہ ہے جو موجود ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ مذہب اور اخلاق کے موافق ہے یا مخالف ۔ اس طرح دیگر قانونی نظریات مثلاً حکمی نظریہ، خالص قانون کا نظریہ، عمرانی نظریہ، تاریخی نظریہ، فلسفیانہ نظریہ وغیرہ ان سب میں منشاء حاکم، منشاء عوام، لوگوں کی خواہشات کی تسکین وغیرہ کی بات کی گئی ہے لیکن مذہبی تناظر میں یہ مباحث نہیں اٹھائی گئی ہیں۔ البتہ لادینی تصور ریاست کے باوجود اب بھی مذہب کا اثر کسی حد تک باقی ہے اور قانون بناتے وقت مذہب کے اہم اور بنیادی اصولوں کو نظرانداز نہیں کیا جاتا ہےکیوں کہ دنیا کے جتنے بھی قانونی نظام ہیں سب کی بنیادیں ان کے تہذیبی افکار، نظریہ حیات اور نظام اخلاق میں پیوست ہیں ، اگرچہ مذہب کا اثر کافی حد تک کمزور پڑ گیا ہے۔
اسلامی قانون ایک کلی نظام ہے جس کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں، بلکہ اسلامی قانون کا اساسی مقصد ہی اسلامی اخلاق و اقدار کا فروغ و تحفظ ہے۔ یہاں قانون اس وقت جواز حاصل کرتاہے جب وحی الٰہی سے ہم آہنگ ہو۔ خیر و شر، اچھے اور بُرے اور کسی چیز کے حسن و قبح کا حقیقی معیار ہی وحی الٰہی ہے ۔ قانونی نوعیت کے احکام میں قاضی کی عدالت میں بھی اس حکم کی خلاف ورزی کی بنا پر مواخذہ کیا جا سکتا ہے لیکن اخلاقی احکام کی خلاف ورزی پر دنیا میں قاضی کی عدالت میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی تا ہم آخرت میں پکڑ ہو گی۔اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ اسلامی قانون میں اخلاق اور قانون کا گہرا رشتہ ہونے کے باوجود اخلاق کو بطور سند (Authority) کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
حوالہ جات
- ↑ پولاکPollock, Frederick) ۱۸۴۵۔۱۹۳۷ء) انگلستان کا معروف قانون دان ہے۔
- ↑ Dias, R.W.M Jurisprudence, 5th ed., Butterworths London, 1985,p.331,332 Jeffrie G. Murphy, & Jules, Philosophy of Law, An introduction to Jurisprudence, Westview press, San Francisco and London 1990,p.11,51,59
- ↑ دیکھئےSmith J.c. and David N. Weisstube, The Western Idea of Law, Butterworths, London etc. 1983,p.147 یہ کتاب مغربی فلسفہ قانون پر مغربی ماہرین قانون کے مختلف مقالات کا مجموعہ ہے جسے J.C. Smithاور David N.W.نے ایڈٹ کیا ہے۔ مقدم الذکر یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں قانون کے پروفیسر رہے ہیں جبکہ مؤخر الذکر یارک یونیورسٹی کے ہال لا سکول کے قانون کے پروفیسر رہے ہیں)حوالہ بالا)
- ↑ Walker R.J. The English Legal System, 6th ed., Butterworths, London 1985, p.7:
- ↑ ہارولڈ جے لکھتاہے: In 1075, after some twenty five years of agitation and propaganda by the papal party, Pope Gregory VII declared the political and legal supremacy of the papacy over the entire western church and the complete independence of the clergy from secular control. (The Western Idea of Law , p. 400) موصوف کو مغربی قانون پر اتھارٹی تصور کیا جاتا ہے، ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رہے ہیں، روس کے قانون کے ماہر تھے۔ ۲۵ کتابوں کے علاوہ ۴۰۰ سے زائد تحقیقی مقالات شائع ہو چکے ہیں جو ۲۰ کے قریب زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔http://search.yahoo.com/harold J.BermanOrigions of western legal science
- ↑ دیکھئے :The Western Idea of Law, p.400
- ↑ ملاحظہ کیجئے درج ذیل عبارات: "The Jewish Law and the prophetic and the christian traditions have provided a rich source for many of the higher values of western law.(The Western Idea of Law, p.196) مذکورہ کتاب میں رولنڈ ڈی ویکس(Roland de Voux) نے "Ancient Israel" اور کوفمن(Y.Kaufmann) نے Religion of Israel" کے عنوان سے مغربی قانون پر اسرائیلی تہذیب اور مذہب کے اثرات کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے،تفصیل کے لیے دیکھئے حوالہ بالا ص ۱۹۷۔۲۱۷، مغربی قانون پر عیسائی مذہب کے اثرات کے لیے دیکھئے: حوالہ بالا ص۳۶۲۔۳۹۱، یونانی تہذیب کے لیے ص ۲۴۲۔۲۴۴ اور رومی تہذیب کے اثرات کے لیے دیکھئے: ص ۳۱۵۔۳۲۵
- ↑ دیکھئے The Western Idea of Law, p.195:
- ↑ Baker J.H. An Introduction to English Legal History, 2nd ed., Butterworths, London, 1979, p.113-114.
- ↑ یہ کشمکش جسے اصلاحات سے تعبیر کیا جاتا ہے اس وقت نقطہ عروج کو پہنچی جب ۱۴۸۵ء میں چیف جسٹس نے بادشاہ کے حق میں یہ فیصلہ دیا:"That the King was answerable directly to God and was superior to the pope within the realm" ۱۵۳۴ء میں کلیسا کی عدالتوں سے اپیل کا حق بھی لے لیا گیا اور کلیسا کی عدالتوں کو ختم کرنے کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ اس کے بعد ایک لاء کمیشن بنایا گیا جسے قانونی اصلاحات کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اختیار دیا گیا کہ وہ بادشاہ کے لیے ان قوانین کا ایک ضابطہ بنائے جن کا تعلق چرچ آف انگلینڈ سے متعلق کلیسائی قوانین سے ہے اور جن کلیسائی قوانین کو منظوری حاصل نہ ہو اسے منسوخ کر دے۔اس طرح پوپ کے اختیارات بتدریج دیگر عدالتوں کو ملتے گئے اور چرچ عملاً غیرمؤثر ہوتا گیا۔ ۱۸۵۷ ء تک نکاح و طلاق کے معاملات چرچ کے دائرہ اختیار میں رہ گئے تھے، اس کے بعد یہ اختیارات صرف چرچ کے امور تک محدود ہو کر رہ گئے ،تفصیل کے لیے دیکھئے: An Introduction to English Legal History (Baker) ، ص ۱۱۳۔۱۱۴
- ↑ خالد ڈھلوں: اصول فقہ: ایک تعارف، شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۰۶ء ۱ : ۱۱۶
- ↑ اخلاق کے معنی و مفہوم کے لیے دیکھئے: غزالی ، ابوحامد محمد بن محمد ،امام، (۵۰۵ھ):احیاء علوم الدین، دارالمعرفۃ، بیروت لبنان، س ن ۳ : ۵۲،
- ↑ Dias, Jurisprudence ص ۳۶۱
- ↑ دیکھئے: حوالا بالا ، ص ۳۵۸
- ↑ دیکھئے: Hampstead, Introduction to Jurisprudence ، ص ۳۰۸
- ↑ Dias, Jurisprudence. P363
- ↑ A Text-Book of Jurisprudence. P72
- ↑ Dias, Jurisprudence, p.377 سیوینی ۱۷۷۹ء مین فرینکفورٹ میں پیدا ہوئے، قانون کی تاریخ پر قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ قانون پر اس کی تالیفات یہ ہیں "History of Roman Law in the Middle ages", "The System of Modern Roman Law"-یہ رومن لاء اور مقامی قانون کا ایک دلچسپ تجزیہ ہے۔
- ↑ ہنری مین تاریخی مکتب فکرکےنمائندہ اورمعروف قانون دان ہیں،جنہوں نےقانون کےتاریخی ارتقاءپرقابل قدرکام کیاہے،تفصیل کےلیےدیکھئےIntroduction to Jurisprudence, p.636:
- ↑ حوالہ بالا ،ص ۶۳۷
- ↑ Dias, Jurisprudence, p. l378
- ↑ Hampstead, An Introduction to Jurisprudence, p.632
- ↑ حوالہ بالا، ص ۶۳۴
- ↑ سب سے پہلے قانونی نظریات میں "Sociology" کی اصطلاح کومٹے(Comte) (۱۷۹۸۔۱۸۵۷ء) نے استعمال کی اور سماجی تحقیق کے چار ذرائع متعارف کرائے: مشاہدہ، تجربہ، تقابل اور تاریخی منہج۔ دیکھئےIntroduction to Jurisprudence, p.345-346 :
- ↑ وہ "The End or purpose of Law" کےعنوان کےتحت لکھتاہے:"At the end of the last and begning of the precent century, a new way of thinking grew up. Jurist began to think in terms of human wants or desires or expectations rather than of human wills".(Hampstead, Introduction to Jurisprudence, p. 380.)
- ↑ Harris, J.W. Legal Philosophies, Butterworths, London, 1980p.36
- ↑ آل عمران ۳ : ۲۰، ۸۵
- ↑ المائدہ ۵ : ۴۷
- ↑ یوسف۱۲ : ۴۰
- ↑ الشعراء ۱۶ : ۱۹۲ - ۱۹۵
- ↑ الشوریٰ ۴۲ : ۱۳
- ↑ المائدہ ۵ : ۴۷
- ↑ الاعراف ۷ : ۲۰۳
- ↑ سبکی، ابو نصر، عبدالوہاب بن علی، تاج الدین:الابہاج فی شرح المنھاج، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، طباعت اوّل، ۱۹۸۴ء ۱ : ۴۳
- ↑ ابن کثیر نے ’’وَمَا اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْ اِلٰھًا وَّاحِدًا‘‘ کی جو تفسیر بیان کی ہے وہ حاکمیت تشریعیۃ کی بہترین وضاحت ہے۔ فرماتے ہیں : ’’ای الذی اذا حرم الشیء فھو الحرام وما حللہ فھو الحلال و ما شرعہ أتبع وماحکم بہ نفذ‘‘ابن کثیر، اسماعیل ابن کثیر،حافظ عماد الدین: تفسیر القرآن العظیم دار عالم الکتب، الریاض، طباعت پنجم ۱۴۱۶ھ /۱۹۹۶ء ، ۲ : ۳۳۳۔۳۳۴
- ↑ آل عمران ۳ : ۳۲، ۱۳۲؛ النساء ۴: ۵۹، ۹۲؛ الانفال ۸ : ۱، ۲۰، ۴۶؛ النور ۲۴ : ۵۴
- ↑ تفسیر القرآن العظیم (ابن کثیر) ۲ : ۲۳۳
- ↑ ہندی ،عبدالعلی محمد بن نظام الدین الانصاری،علامہ (م۱۱۹ھ) :فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت، مکتبۃ الترات الاسلامی، بیروت، لبنان، طباعت اوّل۱۴۱۸ھ/ ۱۹۹۸ء ۱ : ۲۳
- ↑ قرطبی، ابوعبداللہ محمد بن أحمد الأنصاری:الجامع لأحکام القرآن، دارالکتاب العربی، بیروت، طباعت دوم ۲۰۰۰ء ۸ : ۱۱۰
- ↑ حوالہ بالا
- ↑ ا لاحزاب۳۳ : ۳۶
- ↑ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ: سنن ترمذی، الجامع الصحیح، داراحیاء التراث العربی، بیروت، کتاب اللباس، باب ۶ (۱۷۳۹) ۴ : ۲۲۰
- ↑ The Western Idea of Law. P.195
- ↑ حوالہ بالا، ص ۱
- ↑ دیکھئے Manzoor Ahmed, (Editor) Morality and Law, 1st ed., Royal Book: Company, Karachi, 1986. ، ص VIII ، یہ کتاب مسلم اور غیرمسلم ماہرین اخلاقیات کے متعدد مقالا ت پر مشتمل ہے جسے ڈاکٹر منظور احمد نے ایڈٹ کیا ہے۔
- ↑ Dias, Jurisprudence, p.331
- ↑ حوالہ بالا، ص ۳۵۹
- ↑ Salmond, Jurisprudence. p.27؛ Dias, Jurisprudence. p.421
- ↑ Hart, H.L.A. Law, Liberty and Morality, Oxford University Press, 1984. P81-82
- ↑ یٹن لکھتا ہے: Man is free to accept or reject the obligation of ethics, but legal duties are heteronmous, i.e. imposed. ( Paton, G.W. A Text-Book of Jurisprudence, 4th ed., Oxford 1972, p. 72)
- ↑ A Text-Book of Jurisprudence, p72
- ↑ Morality and Law (Manzoor Ahmed), p1
- ↑ David Hume (۱۷۱۱ ۔۱۷۷۶ء) سکاٹ لینڈ کا معروف فلسفی ہے۔ ۔ جان لاک کے افکار سے متاثر ہے۔ مابعدالطبیعات کا رد کرتا ہے۔اس کی ابتدائی تصنیف Atreatise of Human Nature ہے۔
- ↑ KnudHaakonssen بوسٹن یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں اٹھارویں صدی میں مغرب میں اٹھنے والی بیداری، روشن خیالی اور آزادی پر لکھا ہے ۔ یہ کتاب کیمبرج یونیورسٹی سے شائع ہوئی ہے۔ مصنف کہتا ہے: The traditional tory notion that authority is inherent in the social world in the form of a divine right has to be rejected because it invokes force about which human can know nothing. (Haakonssen K. Natural Law and Moral philosophy, Cambridge Unviersity, 1996 p.11)
- ↑ Haakonsson, Natural Law and Moral Philosophy, p.100
- ↑ جوزف راز ،کیلسن کا نقطہ نظر اس کے اپنے الفاظ میں پیش کرتاہے: When positive law and morality are asserted to be two distinct mutually Independent systems of norms, this means only that the Jurist in determining what is legal, does not take into consideration morality and the moralist, in determining what is moral, pays no heel to the prescriptions of positive law." (Raz, Joseph, The Authority of Law, Oxford, 1979.) p. 143.)
- ↑ اس رجحان کا آغاز امریکہ سے ہوا جہاں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں مثلاً جسٹس ہومز(Holmes) وغیرہ نے اس نقطہ نظر کو خوب پروان چڑھایا، لیکن اب اس فکر کو دیگر مغربی ممالک میں بھی پذیرائی حاصل ہو چکی ہے اور مغربی اصول قانون میں اسکینڈی نیوین واقعیت پسندی کے عنوان سے مستقل بحث موجود ہے البتہ لیگل ریئلزم کے نمائندہ دانشور کسی ایک نقطہ نظر پر متفق نہیں بلکہ اس عینیت پسندی کے متعدد ایڈیشن ہیں ڈائس اس مشکل کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں: The difficulty in the way of coherent presentation of their view is that there are varying versions of realism as well as changes of front; positions formerly defended have since been forgotten or abandent:. دیکھئے مصنف مذکورہ کی کتاب Jurisprudence, p. 447
- ↑ Holmes کو واقعیت پسند اسکول(Realist school) کا بانی تصور کیا جاتاہے، یہ امریکہ کی سپریم کورٹ میں ۳۰ سال تک جج رہا ہے اور اس نے امریکہ میں اس تحریک کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔(Curzon, L.B. Jurisprudence, 1st ed., MacDonald and Evans, 1979 ، ص ۱۸۵۔۱۸۶
- ↑ If one wishes to know what law is he said one should view it through theeyes of bad man, who is only concerned with what will happen to him If he does certain things. Jurisprudence (Dias) 449.
- ↑ Dias, Jurisprudence. P449: مصنف موصوف کے بارے میں لکھتے ہیںHagerstrom (1868-1939) who may be regarded as the founder of the Movement in Sweden, has written at length; especially on Roman Law". (Dias, Jurisprudence, p.461)
- ↑ حوالہ بالا، ص ۴۶۱
- ↑ حوالہ بالا، ص ۳۳۱
- ↑ حوالہ بالا
- ↑ شوکانی، محمد بن علی بن محمد:ارشاد الفحول، دارالکتاب العربی، بیروت طباعت دوم، ۱۴۲۱ھ /۲۰۰۰ء ۱ : ۲۸، غزالی، ابوحامد محمد بن محمد ،امام، (۵۰۵ھ): المستصفیٰ من علم الاصول، احیاء التراث الاسلامی، بیروت لبنان، اشاعت اوّل۔ ۱ : ۱۵؛ امیرعبدالعزیز: اصول الفقہ الاسلامی، دارالسلام ،طباعت اوّل ۱۹۹۷۔ ۱ : ۱۹
- ↑ تفتازانی ،مسعود بن عمر،سعدالدین :شرح التلویح علی التوضیح، دارالکتب العلمیۃ ،بیروت، طباعت اوّل ۱۹۹۶ء ۱:۱۶
- ↑ حوالہ بالا
- ↑ براہ راست کی نفی اس لیے کی ہے کہ بالواسطہ تعلق تو ہر آیت کا ہے، کیونکہ جس طرح دنیا کے ہر قانون، فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی پشت پر کائنات، انسان کی تخلیق اور زندگی کی حیثیت جیسے بنیادی سوالات کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور موجود ہوتا ہے جسے فلسفہ قانون کے علماء بھی موضوع بحث بناتے ہیں۔ تاہم ان مباحث کا براہ راست تعلق قانون سے نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلامی قانون میں بھی فقہ کے کے دائرے میں عقائد اور احسان جیسے موضوعات نہیں آتے، عقائد کے لیے علم الکلام کا فن الگ سے مدون کیا گیا ہے۔ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم ہیں بلکہ علاؤالدین سمرقندی نے تو اصول فقہ اور احکام دونوں کو علم اصول الکلام کی فرع قرار دیا ہے: ’’أعلم أن علم اصول الفقہ والاحکام فرع لعلم اصول الکلام‘‘ (علاء الدین ، ابوبکر محمد بن سمرقندی ،(م۵۳۹ھ) :میزان الأصول فی نتائج العقول ، مکتبۃ دارالتراث، القاہرہ، طباعت دوم ۱۹۸۷ء)، ص ۱؛ مزید دیکھئے : شرح التلویح علی التوضیح ۱ : ۲۳۔۲۵)
- ↑ فقہ کی معروف و متداول تعریف یہ ہے : العلم بالاحکام الشرعیہ العملیۃ المکتسب من أدلتھا التفصیلیۃ (قواطع الادلۃ فی الاصول، ص ۶)؛ الجزری، محمد بن یوسف:معراج المنہاج شرح منھاج الوصول الی علم الاصول، دار ابن حزم، بیروت لبنان، طباعت اوّل، ۱۴۲۴ھ/۲۰۰۳ء، ص ۳۹)البتہ امام بزدوی نے علم کی دو قسمیں بیان کر کے فقہ اور علم الکلام میں واضح فرق کیا ہے: ’’العلم نوعان : علم التوحید والصفات و علم الشرائع والاحکام۔۔۔ النوع الثانی علم الفروع و ھو الفقہ (حسام الدین، حسین بن علی:الکافی شرح البزدوی، مکتبۃ الرشد، الریاض، طباعت اوّل، ۱۴۲۲ھ/۲۰۰۱ء ۱ : ۱۵۰۔۱۷۰)۔ مختصر ابن حاجب نے تعریف میں بعض الفاظ میں کمی بیشی کی ہے : ’’الفقۃ العلم بالاحکام الشرعیۃ الفرعیۃ من أدلتھا التفصیلیۃ بالاستدلال‘‘ (سبکی، ابو نصر، عبدالوہاب بن علی، تاج الدین:رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب ، تحقیق و تعلیق دراسۃ الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل احمد عبدالموجود ، عالم الکتب بیروت، اشاعت اوّل ۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹ء۔ ۱ : ۲۴۴) ان تعریفات میں ’’العملیۃ‘‘، ’’علم الفروع‘‘ اور’’ الفرعیۃ‘‘ کی قیود واضح طور پر اخلاق، تزکیہ اور احسان سے متعلق تعلیمات کو فقہ کی تعریف سے خارج کر رہی ہیں کیونکہ اخلاق کا تعلق باطنی اعمال سے ہے جبکہ فقہ کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : سبکی، ابو نصر، عبدالوہاب بن علی، تاج الدین:الابہاج فی شرح المنھاج، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، طباعت اوّل، ۱۹۸۴ء ۱ : ۳۳۔۳۷؛ رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب ۱ : ۲۴۴؛ رازی، فخرالدین، محمد ابن عمر،ضیاء الدین:المحصول فی علم اصول الفقہ، ، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، طباعت اوّل ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء ۱: ۶۔۸؛ زرکشی، محمد بن بہادر، بدرالدین: البحرالمحیط، فی اصول الفقہ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت طباعت اوّل، ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء ۱: ۱۵۔۱۷؛ شرح التلویح علی التوضیح ۱ : ۲۴۔۲۶)
- ↑ الابھاج فی شرح المنہاج ۱ : ۴۳
- ↑ زیدان، عبدالکریم،ڈاکٹر:المدخل للدراسۃ الشریعۃ الاسلامیۃ، مکتبۃ القدس، موسسۃ الرسالۃ بیروت، طباعت ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء، ص ۶۵
- ↑ علامہ تفتازانی لکھتے ہیں : ’’والفقہ معرفۃ النفس مالھا وما علیھا ویزاد عملاً لیخرج الاعتقادیات والوجدانیات فیخرج الکلام والتصوف و من لم یزد ارادالشمول، ھذہ التعریف منقول عن ابی حنیفۃ‘‘ (شرح التلویح علی التوضیح، ۱ : ۱۶)
- ↑ عروسی، محمد تاج، عبدالرحمن،ڈاکٹر :الفقہ الاسلامی فی میزان التاریخ، انسٹانٹ پرنٹ سسٹم، اسلام آباد، طباعت اوّل، ۲۰۰۳ء ، ص ۱۲
- ↑ بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان طباعت اوّل، ۱۴۲۲ھ/۲۰۰۱ء، کتاب البیوع، باب لایبیع علی بیع أخیہ (۲۱۴۰)، ص ۳۷۲
- ↑ ا بن حجر،ابوالفضل احمد بن علی:فتح الباری، مکتبۃ الغزالی، دمشق، س ن ، ۴ : ۳۵۴
- ↑ ا لبقرۃ ۲ : ۲۰۸
- ↑ ا سلامی قانون نقلی اور عقلی مصادر کا حسین امتزاج اوراس کی بہترین مثال ہے۔
- ↑ The Western Idea of Law, p.4-7
- ↑ Dias, Jurisprudence, p.741-746
- ↑ Hart, H.L.A, The Concept of Law, Oxford, 1961, 151, 181