ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی
ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی
پروفیسر سید علی محمد خسرو کے انتقال کے دو ہی دن بعد ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی نے بھی ۲۶؍ اگست کو رختِ سفر باندھا اور رحلت فرماگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر قریشی لکھنو کے مشہور و مقبول معالج، ہومیوپیتھی کے حاذق ڈاکٹر، دینی تعلیمی کونسل کے روح رواں، اس کے اولین کارواں کے آخری مسافر اور مختلف اصلاحی، دینی، قومی، ملی، تعلیمی اور اجتماعی تحریکوں اور تنظیموں کے ہم دم و دم ساز تھے، ان کی وفات سے جو خلا ہوا ہے، اس کا پر ہونا مشکل ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا وطن پرتاپ گڑھ تھا، نیشنل ہومیوپیتھک کالج میں لکچرر ہوکر لکھنو تشریف لائے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے، شدہ شدہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے تعلق ہوگیا جو اتنا بڑھا کہ سفر و حضر ہر جگہ ان کے ساتھ رہتے، ۱۹۶۲ء میں مولانا جنیوا، لندن اور اسپین وغیرہ کے سفر پر گئے تو انہیں بھی اپنے ہم راہ لے گئے، ایک عرصے تک وہ مولانا سے ایسا گھل مل کررہتے تھے کہ ان ہی کے خاندان کے فرد معلوم ہوتے تھے، مولانا کے برادر اکبر ڈاکٹر سید عبدالعلی سابق ناظم ندوۃالعلما کی بیماری کے زمانے میں بڑی دل سوزی سے ان کی خدمت کی اور وفات کے بعد ان ہی کے مطب میں پریکٹس شروع کی مگر بعد میں نخاس میں اکبر گیٹ کے پاس اپنا ذاتی مطب کھولا اور دیکھتے دیکھتے مریضوں کا ایسا تانتا بندھنے لگا کہ ظہر کی نماز کے لیے بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔
وہ مجھ سے اکثر شکایت کرتے کہ لکھنو آکر چلے جاتے ہو نہ خود ملتے ہو، نہ ملنے کا موقع دیتے ہو، ایک مرتبہ گیارہ بارہ بجے گیا تو ہجوم دیکھ کر گھبرا گیا، کسی طرح اطلاع کرائی تو فوراً تشریف لائے اور اوپر لے گئے اور کہا...