پس ماندگی کے مظاہر
ناطق کے پاس علم کا وسیع خزانہ موجود ہے۔ جب ان کا ناول’’نولکھی کوٹھی‘‘ میں نے پڑھا تو مجھے بھی اس بات سے اتفاق ہوا کہ واقعی ناطق ایک انوکھے شخص ہیں جو علم و حکمت کی دولت سے زرخیز ہیں۔ پنجاب کی مٹی سے ان کو لگاؤ نہیں بے حد لگاؤ ہے۔بہت سادگی سے کہیں دل کی بات کہہ دی تو کہیں انتہائی پیچیدگی سے معاملے کو پیش کیا۔ اپنی ہی ذات میں مست ایک انسان جو کہ بس لکھتا ہے۔ کبھی لفظوں کو شاعری کا رنگ دیتا ہے تو جب کبھی جذبات سنبھالے نہ جائیں اور لکھنے کے لیے شاعری سے زیادہ وسعت مانگیں تو انہیں نثر میں مانند گوہر سمو دیتے ہیں۔ تحریر میں جگہ جگہ جزئیات سے جو کام لیا گیا ہے۔ہر با ت کو کھل کر بیان کیاگیا، ہر معاملے اور واقعے کے پیچھے کے اسباب و حقیقت کو کھل کر بیان کرنا بھی کبھی ناممکن نظر آتا ہے۔مگر نو لکھی کوٹھی کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ یہ بات بھی اب نا ممکن نہیں رہی۔ ناطق نے ناول میں تقسیم کے بعد کے نقصانات کو بھی بیان کیا ہے۔وہ تقسیم سے ناراض معلوم ہوتے ہیں۔جب تقسیم ہند کے واقعات کو پڑھتے ہیں تو ان کا مخصوص لب و لہجہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے،مولویوں پر نشتر چلاتے نظر آتے ہیں جو کہ طنز سے بھر پور ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر انہوں نے جو کارنامہ سر انجام دینے کی سعی کی ہے وہ ایڈمنسٹریشن سسٹم کی حقیقت بیان کی ہے۔ انہوں نے ناول کو صرف اس لیے نہیں لکھا کہ پڑھنے کے بعد انہیں نقادوں اور ادیبوں سے داد یا تنقید ملے۔ بس وہ کھلے دل کے ، اپنی طرز کے واحد آدمی ہیں جنھوں نے ناول...
إذا كان التفكير الفلسفي منذ القدم قد جعل المعرفة وما يضمن شروط صدقها وعدم كذبها جزءا أساسيا من اهتماماته، فإن تناول هذه الإشكالية ظل دوما مرتبطا بما يميز كل فلسفة، مثلما هو مرتبط من جهة أخرى باللحظة التاريخية وبهيمنة بعض القضايا النظرية خلال تلك الحقبة. وقد تطور تناول هذا الإشكالية، من كونه إشكالية مرتبطة بأرسطو وبلغته الفلسفية والمنطقية التي تقوم على الحدود والقضايا والمقولات، إلى إشكالية الفلسفة الحديثة التي تقوم على سؤال مصادر المعرفة: بين العقلي والحسي-التجريبي، وما يرتبط بذلك من قضايا مثل آليات اشتغال العقل ودور الحسي والعواطف الانفعالات في إنتاج المعرفة والعلم، فضلا عن منزلة الرياضيات ومناهجها في إقامة وتطور المعرفة العلمية والفلسفية بالإنسان والطبيعة. من هنا تأتي أهمية تناول هذا المقال لموقف ''لايبنيز'' (Gottfried Wilhelm Leibniz) من مصادر المعرفة، وذلك للكشف عن أساس نظرية المعرفة ومبادئها انطلاقا من مفهوم الجوهر والموناد وتكامل العلاقة بين الإيمان والعقل، القائم على أساس العناية الإلهية. وقد عمل ''لايبنيز'' على إبراز وجهة نظره من خلال الرد على الفلاسفة السابقين مما يجعله تمهيدا أساسيا لفهم أهمية تلك المواقف وجعل العودة إليها أمرا حاسما في فهم هذه الإشكالية
This research work focuses on T-transitive fuzzy orderings, their mathematical structures and representation results on these orderings. We have shown that the consistent nature of a fuzzy preference relation has direct relationship with its being more or less T-transitive. After handling this task, some work is done on applications of T-transitivity in the area of preference modeling. Here we have presented some new algorithms to complete an incomplete fuzzy preference relation. These algorithms are based on T-transitivity of a given fuzzy relation. This work has its roots in multi criteria and multi agent decision making. The target is to achieve a ranking among alternatives while incomplete information is provided by the judges about criteria of selection and pair wise preferences amongst alternatives. We have further extended these results to their interval valued versions where the consistent and consensus degrees are also accommodated. The theory and algorithms provided so far are then used to solve real life problems of industry i.e., the problem of supplier selection in the supply chain management where the successful implementation of the results is demonstrated.