مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ء کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی وفات سے یہ برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا بھی ایک ممتاز متکلم، ایک مضطرب مفکر، ایک دیدہ ور مفسر، ایک بے چین شارح دین، ایک قابل قدر ترجمان شریعت اور ایک بلند پایہ مصنف سے محروم ہوگئی۔
انھوں نے ۷۷ برس کی عمر پائی، ان گنت کتابوں کے مصنف ہوئے شروع میں ان کی تحریریں نکلیں تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو محسوس ہونے لگا کہ ان میں وہ ساری باتیں ہیں جن کی تلاش ان کے ذہن کو ہے، جب وہ مغربی افکار کے ابلیس کی تلبیس سے دب کر اپنے تذبذب اور تشکیک کی بناء پر اسلام کو جامد اور غیر متحرک پارہا تھا تو اس کو مولانا مودودی کی تحریروں کے ذریعہ سے یہ احساس ہوا کہ کوئی اس کے تاریک اور منجمد ذہن پر ہلہ بول کر اس کو جھنجھوڑ رہا ہے، مولانا مودودی کی تحریروں میں شگفتگی بھی ہوتی، دلنشینی بھی، حرارت ایمانی کی گرمی بھی، نظر و فکر کی گرم جوشی بھی، منطقی دلائل کے یقین کی پختگی بھی، عالمانہ انداز میں کلام پاک اور حدیث کی جاندار تعبیر بھی، اسلام کے ناقدوں اور خصوصاً فرنگی معترضوں کے خلاف جارحانہ حملے بھی اور یورپی طرز فکر کی جرأت مندانہ تحدی بھی، اس لئے وہ شوق سے پڑھی گئیں، ان کا علم ایک بحرخار تھا، جس سے انھوں نے بقول استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی، ’’یورپ کے ملحدانہ افکار‘‘ کے خلاف ایک بند باندھنے کی کوشش کی اس میں ان کے قلم کی بے مثال قوت ان کا پورا ساتھ دیتی رہی۔
رفتہ رفتہ وہ ایک خاص مکتب فکر اور تحریک کے بانی قرار پائے جس سے صالح قیادت کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی معاشرتی اور سیاسی زندگی میں طاقتور دینی روح دینی اخلاص اور دینی قدریں پیدا...