Warning: Page language "ur" overrides earlier page language "".
کتابیات
|
مجلہ
|
مجلة قسم أصول الدين العالمية
|
عنوان
|
سیرت نبوی ﷺ کا اجتہادی پہلو
|
انگریزی عنوان
|
The Ijtihadic Aspect of Seerah Nabvi (S. A. W)
|
مصنف
|
حسین، صدام، صفيہ آفتاب
|
جلد
|
1
|
شمارہ
|
2
|
سال
|
2017
|
صفحات
|
2-11
|
مکمل مقالہ
|

|
کلیدی الفاظ
|
Seerat un Nabi, Ijtihad and Seerah, Life of the Holy Prophet and Ijtihad.
|
شکاگو 16
|
حسین، صدام، صفيہ آفتاب۔ "سیرت نبوی ﷺ کا اجتہادی پہلو۔" مجلة قسم أصول الدين العالمية 1, شمارہ۔ 2 (2017)۔
|
Abstract
Islamic sharia and law is not stagnant and abrogated, but it has flexibility that it could adopt new and modern issues and can get the solution according to Quranic and Sunnah teachings. It means the Ijtehadic aspect of Suunah is unlocked till the Day of Judgment so that it could be attached with the modern Islamic principles and laws, and to find the solution of peoples’ need and concerns that should be compatible with the modern age.
Striving towards solution of the issues is not forbidden but it is required. This is not new Ijtehad but it’s a opinions and consensus of Muslims scholars and Mujtahdeen regarding it that is called Tahqeeq Manat in the language of jurisprudence.
The purpose of Ijtehad from the seerah aspect is that we should present the Islamic sharia and law in such a way that it should have balance, while presenting the solution of any modern issue.
”قرآن“کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی”سیرت“ہے۔ دراصل”قرآن“اور”حیات نبوی ﷺ“معاً ایک ہی ہیں۔ قرآن متن ہے تو سیرت اس کی شرح، قرآن علم ہے تو سیرت اس کا عمل، قرآن مابین الدفتین (دو طاقوں کے درمیان) ہے تو یہ ایک مجسم و ممثل قرآن تھا جو مدینہ کی سرزمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا،" کان خلقہ القرآن"سیرت نبویﷺ کا اعجاز ہے کہ اس کے اندر ہزاروں روشن پہلو ہیں۔ دنیا کو جس پہلو یا گوشے سے روشنی اور گرمی مطلوب ہو، اس کو سیرت نبوی ﷺکے بے مثال خزانہ میں وہ اسوہ اور نمونہ مل جاتا ہے جس سے اپنے ہمہ نوعیتی مسائل و مشکلات کا کامیاب ترین حل نکال لے۔
آپ ﷺکی زندگی کا کوئی گوشہ تاریکی میں نہیں۔ آپ ؐکی حیات طیبہ کے تمام ہی پہلو سورج سے زیادہ ظاہر وعیاں ہوکر دنیا کے سامنے موجود ہیں، آپؐ جس پیغام الہٰی کو لے کر دنیا میں تشریف لائے، وہ ساری انسانیت کیلئے ایک ہمہ گیر،مستحکم ومضبوط اور"عائمی نظام حیات"ہے اور اس نے اپنی اس امتیازی شان، ہمہ گیری اور دوامی حیثیت کی بقاء کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اورگنجائش رکھی ہے کہ ہر دورمیں اور ہرجگہ انسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے اور کسی منزل پر اپنے پیروں کی رہبری سے عاجز وقاصر نہ رہے۔ بہر کیف لوگوں کو جس قسم کے مسائل و حالات پیش آسکتے ہیں، ان کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:
(۱) وہ مسائل جن میں حالات و زمانے کے اختلاف سے کوئی تغیر پیدا نہ ہو۔ ایسے مسائل کیلئے شروع ہی سے شریعت میں تفصیلی احکام و قواعد ثابت و موجود ہیں۔ جیسے: نکاح، طلاق، محرمات اور میراث وغیرہ کے احکام۔
(۲) وہ مسائل جو حالات و زمانے کے بدلنے سے متغیر ہوسکتے ہوں ایسے مسائل کے بارے میں شریعت نے کوئی تفصیلی احکام نہیں چھوڑے ہیں؛ بلکہ اس سلسلے میں عام قواعد اور بنیادی اصول ومبادی وضع کردی ہے اور امت کے بالغ نظر اور بلند پایہ فقہاء کیلئے یہ گنجائش چھوڑ دی ہے کہ شریعت کے مقاصد، اس کے مزاج ومذاق، احکام شرع کے مدارج اور دین کی بنیادی اصول و قواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام تلاش کریں۔ لیکن اس مقصد کیلئے یہ ضروری ہے کہ علمائے امت کے سامنے سیرت نبوی ﷺکا فکری اور اجتہادی پہلو ہو جس کی رہنمائی میں ہر زمانہ کے علماء وفقہاء غیرمنصوص اور نئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی غور و فکر کے ذریعہ کوئی شرعی حکم نکال سکیں۔سیرت نبوی ﷺکا اعجاز دیکھئے کہ اس میں وہ قیاس واجتہاد کے ایک دو نہیں متعدد علمی نمونے موجود ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺنے خود اپنے قول وسیرت سے یہ راہ کھلی رکھی ہے تاکہ کتاب وسنت کے اصولی ہدایات کی تطبیق پیش آنے والی جزئیات یہ قیامت تک جاری رہ سکے۔ ذیل کی سطروں میں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آپ ﷺکے اسی گوشہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔
علماء اصول کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ غیرمنصوص مسائل میں آپﷺ کیلئے اجتہاد جائز تھا یا نہیں؟ جمہور علماء ِاصول کے یہاں جائز ہے۔ معتزلہ اور ابن حزم ظاہری کے یہاں جائز نہیں ہے۔(1) پھر جولوگ اجتہاد نبی ﷺکو جائز قرار دیتے ہیں ان کے مابین دو باتوں میں اختلاف ہے:
(الف) کس قسم کے مسائل میں آپ ﷺنے اجتہاد کیا ہے؟
(ب) آپ ﷺکب اجتہاد فرمایا کرتے تھے؟
علامہ قرافی ؒ، علامہ عبدالعزیز بخاریؒ اور علامہ شوکانی ؒنے اس پر جمہور علمائے امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ آپ ﷺنے جنگی امور اور دنیوی معاملات کے سلسلے میں اجتہاد فرمایا ہے۔بخاریؒ کے الفاظ یہ ہیں:
کلہم قد اتفقوا علیٰ أن العمل یجوز لہ بالرأی فی الحروب وامور الدنیا۔(2)
علامہ قرافی ؒبھی یہی فرماتے ہیں:
محمل الخلاف فی الفتاویٰ. امّا الأقضیة فیجوز الأجتہاد بالاجماع۔(3)
لیکن کیا آپ ﷺنے شرعی امور میں بھی اجتہاد کیا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اصولیین کا قول مختلف ہے۔ دلائل کی روشنی میں جو قول نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺنے شرعی امور میں بھی اخذ واستنباط سے کام لیا ہے۔(4)
جس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺنے کیفیت اذان کے سلسلے میں اپنے صحابہ کے ساتھ اجماعی غور وتدبیر کے بعد اپنے اجتہاد و قیاس سے حضرت عمر ؓ کے مشورہ پر ایک فیصلہ فرمایا اور پھر حضرت بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ”اذان“کوئی دنیوی یا جنگی معاملہ نہیں، بلکہ خالص اللہ کا حق ہے اور شعائر دین ومذہب ہے۔ لیکن اس میں بھی آپ کا اجتہاد وقیاس ثابت ہے۔ اس سلسلے میں مزید دلائل کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔اجتہادِ نبویﷺ کی کیفیت کے سلسلے میں جمہور محدثین اور ائمہ ثلاثہ کا رجحان یہ ہے کہ آپﷺ کسی بھی واقعہ کے پیش آتے ہی اجتہاد کرلیا کرتے تھے اس سلسلے میں آپ وحی کا انتظار نہیں فرماتے تھے۔ لیکن اس بارے میں احناف کا راجح نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ ﷺ پیش آمدہ مسائل میں پہلے ”وحی“ کا انتظار کرتے اگر ”مدت انتظار“میں وحی نازل ہوجاتی تو فبہا ورنہ آپﷺ اجتہاد وقیاس کے ذریعہ ان کا حل بتادیتے۔
علامہ سرخسی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
وأصح الاأقاویل عندنا أنہ علیہ الصلوة فیما کان یبتلی بہ من الحوادث التی لیس فیہا وحی منزل، کان ینتظر الوحی الی أن تمضَی مدة الانتظار ثم کان یعمل بالرأی والاجتہاد۔(5)
’’آپﷺ پیش آمدہ مسائل میں پہلے وحی کا انتظار کرتے اگر مدت انتظارمیں وحی نازل ہوجاتی تو فبہا ورنہ آپﷺ اجتہاد وقیاس کے ذریعہ ان کا حل بتادیتے۔‘‘
آپﷺفکرواجتہاد کے مامور تھے۔ درج ذیل میں اسکے دلائل اور اسکی مثالیں بیان کی جائیں گی :
(۱) بنونظیر جب مدینہ طیبہ سے شام جلاوطن کردئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اہل بصیرت کو ان کی بدعہدی اور شرارت پے عبرت دلاتے ہوئے فرمایا:فاعتبروا یا أولی الابصار”اعتبار، کہتے ہیں کسی چیز کی حقیقت ودلائل میں غور وفکر کرکے اسی جنس کی دوسری چیز کو جان لینا“ آیت میں ارباب بصیرت، صاحب نظروفکر لوگوں کو غور وتدبر کا بالعموم حکم دیاگیا ہے اورنبی کریمﷺ سے بڑھ کر کون بالغ نظر ہوسکتا ہے؟ لہٰذا آیت پاک میں جس غور وفکر کا حکم دیا جارہا ہے آپ ﷺ بھی اس کے عموم میں داخل ہیں اور اجتہاد وقیاس کے مکلف آپﷺبھی ہوئے۔
(۲) واذا جاء ہم امر من الأمن اوالخوف أذاعوبہ ولوردوہ الی الرسول والی أولی الامر منہم لعلم الذین لیستنبطونہ منہم۔(6)
امام رازی ؒ فرماتے ہیں : آیت پاک میں استنباط و تحقیق کے اندر اللہ تعالیٰ نے نبی پاکﷺ اور اولی الامر اور حاکموں کو یکساں قرار دیا ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ اخذ و استنباط کے مکلف تھے۔ فعلم من ذلک أن الرسول علیہ الصلاة والسلام مکلف بالاستنباط۔(7)
آیت پاک میں ”أمر من الامن اوالخوف“سے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آپﷺ شرعی مسائل میں بھی اجتہاد کرتے تھے۔ اس لئے کہ لفظ ”اَمرٌ“مطلق آیا ہے اور جس طرح سے جنگ وجدال میں امن وخوف کی حالت ہوتی ہے اسی طرح امور دینیہ میں بھی امن وخوف کی حالت کا تحقق ممکن ہے۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح آپ ﷺجنگی امور میں اجتہاد فرمایا کرتے تھے اسی طرح شرعی امور میں بھی آپﷺ اجتہاد وقیاس کے مامور ومجاز تھے۔(8)
(۳) لولا کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم۔(9)
بدر کی لڑائی میں ستر کافر مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوکر آئے، آپﷺنے ان قیدیوں کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیا۔ حضرات صحابہؓ نے اجتماعی غور وتدبر کے بعد ان قیدیوں کے سلسلے میں مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی رائے یہ تھی کہ فدیہ لے کر ان تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے، جبکہ حضرت عمر فاروقؓ کی رائے یہ تھی کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے، حضرت سعد بن معاذ ؓ کی بھی یہی رائے تھی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد نبی کریمﷺ نے اپنی طبعی رافت ورحمت کی بناء پر حضرت ابوبکرؓ کے مشورہ پر عمل کیا۔ اور تمام قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا گیا۔ لیکن آپ کے اس فیصلہ کو خدا تعالیٰ کی جانب سے اجتہادی غلطی قرار دی گئی اور پھر آیت مذکورہ میں جو سخت عتاب آمیز لہجہ اختیار کیاگیا وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آیت پاک سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں:
اوّل: یہ کہ کسی پیش آمدہ مسائل میں کتاب و سنت میں کوئی حکم نہیں ملتا تو آپ ﷺ کیلئے اجتہاد کرنا جائز تھا۔
دوم: یہ ہے کہ جس طرح آپﷺ کیلئے جنگی امور میں اجتہاد کرنا جائز تھا۔ اسی طرح شرعی امور میں بھی آپؐ اجتہاد کے مکلف تھے۔ جنگ بدر کا معاملہ صرف ایک جنگی حد تک محدود نہ تھا بلکہ یہ جنگ ایمان وکفر، حق وباطل کی فیصلہ کن لڑائی ہونے کی وجہ سے مذہبی و شرعی معاملہ کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔امام رازیؒ فرماتے ہیں:
فالآیة صریحة فی بیان أن الرسول علیہ الصلاة والسلام کان یحکم بمقتضی الاجتہاد فی الوقائع التی لم ینزل بہا نص او وحی۔(10)
(۴) فتح مکہ کے دن مکہ المکرمہ کی حرمت وعظمت کو بیان کرتے ہوئے آپﷺنے ارشاد فرمایا: فہو حرام بحرمة اللّٰہ تعالیٰ الٰی یوم القیامة، لا یُعضد شوکة ولا ینفر صیدہ ولا تلتقط لقطة الاّ من عرّفہا ولا یختل خلاہا۔ حضرت عباسؓ نے فرمایا: یارسول اللہ! آپﷺتمام گھانسوں کو ممنوع فرمارہے ہیں، حالانکہ ”اذخر“ کی ضرورت ہم لوگوں کو گھر کی چھتوں میں پڑتی رہتی ہے؟ نبی کریمﷺنے فرمایا: ”الا الاذخر“۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: آپﷺ کا پھر ”اذخر“ کا استثناء کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ گھاس وغیرہ کی حرمت کے سلسلہ میں آپﷺ نے اجتہاد کیا تھا۔ وہذا مبنی علی ان الرسول کان لہ ان یجتہد فی الاحکام۔(11)
(۵) قریش نے اپنے دور میں خانہ کعبہ کی جو تعمیر کی تھی۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے خلاف تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نےسوال کیا: ألا تردہا علی قواعد ابراہیم؟ آپﷺنے فرمایا: لولا حدثان قومک بالکفر لفعلت۔(12) آپ کا یہ ارشاد بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ نے قریش کی تعمیر کردہ بنیاد کو جو باقی رکھا وہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔ اس لئے کہ اگر آپﷺ عمارت منہدم کرنے کا مامور ہوتے تو خوف فتنہ اس سے قطعا مانع نہیں ہوتا۔
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپﷺ اجتہاد و قیاس کے مامور ومکلف تھے۔ آپﷺنے دینی ودنیوی تمام امور میں اجتہاد کیا ہے۔ذیل میں قدرے تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ کن کن معاملات میں آپﷺ نے اجتہاد سے کام لیا ہے۔
دنیوی امور میں آپ ﷺ کے اجتہادات
(۱) ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ کے یہاں آپﷺ نے شہد نوش فرمایا، حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہ ؓ کو اس کا علم ہوا تو دونوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ ہم میں سے جس کے پاس حضورﷺ تشریف لائیں، ہر کوئی یہ کہے کہ حضورﷺ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے! ایسا ہی ہوا، آپ حضرت عائشہؓ اور حفصہؓ میں سے جن کے پاس تشریف لے گئے آپﷺسے یہی سوال ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، میں نے زینب کے پاس شہد پیا ہے۔ اگر تم لوگوں کو اس شہد کی وجہ سے ناراضگی ہوئی تو دیا رکھو! آج سے میں شہد ہی نہیں پیونگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: لم یتحرم ما احل اللّٰہ لک۔(13) آپﷺ نے بعض ازواج کی دلجوئی کے واسطے اپنے اوپر شہد کو حرام کیاگیا، یہ محض آپ کا قیاس تھا۔
(۲) آپﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار مدینہ ترکھجور کا پیوند مادہ کھجور کو لگاتے ہیں تو کھجور زیادہ ہوتی ہے، آپﷺنے انصار کو اس طرز عمل سے منع کردیا۔ اتفاق سے اس سال مدینہ میں کھجور کی پیداوار بالکل گھٹ گئی تو آپﷺ نے پھر اجازت دے دی۔(14) پہلے تابیر نخلہ کی ممانعت آپ ﷺکا اجتہاد تھا۔
(۳) آپﷺ اکابر قریش کو اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مشغول تھے۔ اسی دوران حضرت عبداللہ ؓبن ام مکتوم حاضر مجلس ہوئے، آپﷺ نے کفار ومشرکین کے قبول اسلام کی امید پر نابینا صحابی سے منھ پھیر لیا، جس پر آیت: عبس و تولّٰی۔۔۔۔۔۔۔الخ نازل ہوئی آپﷺ کا یہ اعراض محض اجتہاد تھا۔(15)
جنگی امور میں آپﷺکے اجتہادات
(۱) غزوہ بدر کی لڑائی کے سلسلے میں آپﷺنے اپنی رائے سے ایک جگہ متعین کی تھی، بعد میں حضرت حباب بن المنذر کی رائے سے وہ جگہ بدل دی- پہلی جگہ کے سلسلے میں آپﷺنے اجتہاد کیا تھا۔(16)
(۲) اساری بدر کے سلسلے میں آپﷺنے جو کچھ فیصلہ فرمایا تھا وہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔
(۳) غزوہ احد کے سلسلے میں مدینہ سے باہر نکلنے یا نہ نکلنے میں آپﷺنے اجتہاد کیا تھا کہ مدینہ ہی میں رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیاجائے۔بعد میں اس تعلق سے آپﷺ پر وحی آئی۔(17)
(۴) ”خندق “ غزوئہ احزاب میں حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے پر آپﷺ نے عمل کیا۔ یہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں آپﷺ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔(18)
(۵) غزوہ خندق میں قبیلہ غطفان کے دوسردار’’ عیینہ بن الحصن‘‘ اور ”الحارث بن عوف المروی“سے مدینہ کی ثلث کھجور پر مصالحت کی پیشکش کی تھی۔ یہ صرف آپﷺ کا اجتہاد تھا۔(19)
(۶) غزوہ تبوک میں بعض منافقوں کے اعذار کی وجہ سے آپﷺنے انہیں جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت و رخصت دیدی تھی ۔ یہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔(20)
معاملات و قضایا میں آپﷺکے اجتہادات
(۱) حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کو آپﷺنے اپنی اس بیوی سے رجوع کا حکم دیا تھا۔ جس کو انھوں نے حالت حیض میں طلاق دی تھی۔ یہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔(21)
(۲) حضرت ابوسفیانؓ کی بیوی ”ہند بنت عتبہ“نے جب حضرت ابوسفیان ؓ کی بخالت کی شکایت کی توآپﷺ نے فرمایا: خذی من مالہ بالمعروف ما یکفیک ویکفی بینک۔(22) عورت کی ضرورت و کفایت کے بقدر شوہر پر نفقہ کا واجب کرنا آپ ﷺ کا اجتہاد تھا۔
عبادات میں آپ کے اجتہادات
(۱) کیفیت اذان کے سلسلے میں حضرات صحابہؓ سے مشورہ کے بعد آپﷺنے جو کچھ فیصلہ فرمایا، وہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں کوئی وحی وغیرہ نازل نہیں ہوئی تھی۔(23)
(۲) ابتداء میں بیت المقدس آپﷺ کا قبلہ تھا اور 16 یا 17 مہینہ ادھرہی رخ کرکے آپﷺنے نماز ادا کی، لیکن آپﷺ کی خواہش تھی کہ آپﷺ کا قبلہ مسجد حرام ہوجائے، چنانچہ آیت نازل ہوئی: قد نریٰ تقلب وجہک فی السماء۔ آپﷺنے مسجد حرام کے قبلہ ہونے میں اجتہاد و قیاس کیا تھا۔(24)
(۳) منبر سازی کے سلسلہ میں آپﷺنے اپنے ساتھیوں کی درخواست قبول فرمائی۔ یہ آپﷺکا اجتہاد تھا۔(25)
(۴) جماعت کی نماز چھوڑنے والے کے سلسلے میں آپﷺ کا اجتہاد تھا کہ لکڑیاں جمع کرکے انہیں جلادیا جائے، لیکن پھر آپ ﷺنے اس ارادہ سے رجوع کرلیا۔(26) اگر تارک الجماعة کو جلانے کا حکم منجانب اللہ ہوتا تو آپ ؐاس سے رجوع نہ فرماتے۔
(۵) رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے آپﷺنے استغفار کیا تھا۔ یہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔(27)
(6) حضرت ابوطالب سے آپﷺنے فرمایا تھا: لاستغفرن لک مالم اُمن۔(28) فأنزل اللّٰہ تعالیٰ: ما کان للنبی والذین آمنو ان یستغفروا للمشرکین۔ آپﷺ کا اپنے چچا کیلئے استغفار کا ارادہ محض آپؐ کا اجتہاد تھا۔
مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپﷺنے تمام ہی قسم کے معاملات میں اجتہاد و استنباط سے فیصلے کئے ہیں۔ البتہ آپﷺ کے اجتہاد اور امت کے مجتہدین کے اجتہادات میں آسمان وزمین کافرق ہے۔ آپﷺ کے اجتہاد میں ہدایت ہی ہدایت ہے۔اگر آپ ﷺ کا اجتہاد مشیت الہیٰ کے مطابق نہیں ہوتا تو ہر وقت وحی کے ذریعہ آپﷺ کوصحیح واقعہ کی رہنمائی کردی جاتی تھی۔ لیکن اتنا مسلّم ہے کہ آپﷺ نے حالات وواقعات میں اپنے اجتہاد و استنباط سے کام لیا ہے۔آپﷺ کے اجتہادات کا حکم آپﷺنے جن مسائل میں اخذ واستنباط سے کام لیا ہے، تو کیا آپﷺاپنے تمام اجتہاد میں درستگی ہی پر تھے یا آپ ﷺ سے خطاء و چوک بھی واقع ہواہے؟ جمہور محدثین کی یہی رائے ہے کہ آپﷺاپنے اجتہادات میں معصوم عن الخطاء تھے، جبکہ احناف کا اس سلسلے میں نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپﷺ کے اجتہادات میں خطاء بھی واقع ہوئی ہے۔ البتہ وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کرکے صحیح واقعہ کی رہنمائی فی الفور کردی جاتی تھی۔
دلائل کی روشنی میں احناف کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
(۱) آپﷺ کی جس اجتہادی غلطی پر خدا کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے۔ اس میں”عفا اللّٰہ عنک“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لفظ”عفو“ اسی وقت استعمال ہوسکتا ہے جبکہ اس سے پہلے”خطا“ کو موجود مانا جائے۔
(۲) مذکورہ آیت”لم اذنت لہم“میں استفہام انکاری ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ منافقوں کو غزوہ تبوک میں عدم شرکت کی اجازت دینا آپﷺ کی چوک تھی۔
(۳) حضرت قتادہ اور عمروبن میمون فرماتے ہیں: اثنان فعلہما الرسول لم یوٴمر بشیء منہما اذنہ للمنافقین، واخذہ الفداء فی الأسٰریٰ، فعاتبہ اللّٰہ کما تسمعون۔(29)
بہرحال آپﷺکے اجتہادات میں خطاء کا واقع ہوجانا ممکن ہے۔ لیکن وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا جاتا۔ آپ ﷺ کے خطاء اجتہادی کو برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔(30)
دورنبویﷺ میں حضرات صحابہؓ کا اجتہاد
اجتہاد نبی ﷺکی طرح یہ مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے کہ آپﷺکے رہتے ہوئے حضرات صحابہؓ کا کسی پیش آمدہ مسئلہ میں اجتہاد کرنا جائز تھا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء اور احناف کی رائے یہ ہے کہ جس طرح آپﷺ کو نئے اور غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت تھی، اسی طرح حضرات صحابہؓ کیلئے بھی یہ جائز تھا کہ وہ اپنے اجتہاد و قیاس کے ذریعہ نوازل وواقعات کا حل تلاش کریں۔ ذیل میں ہم اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
(۱) حضرت سعد بن معاذ ؓنے حضورﷺ کے اشارہ سے یہود بنوقریظہ کے سلسلہ میں جو فیصلہ دیا تھا: انی أحکم فیہم ان یقتل الرجال وتقسم الاموال وتسبی الذرایا والنساء۔ آپﷺ کا یہ فیصلہ آپﷺ کا اجتہاد تھا۔ آپﷺ نے آپ کے اس اجتہادی فیصلہ کی پرزورالفاظ میں تحسین فرمائی: لقد حکمت فیہم بحکم اللّٰہ من فوق سبع ارفعة (سماوات)
(۲) غزوہ احزاب سے واپسی کے موقع پر آپﷺنے صحابہ سے فرمایا تھا: لایصلین احدکم العصر، الا فی بنی قریظة بعض صحابہ ؓنے اس ارشاد کو حقیقی معنی پر معمول کرتے ہوئے بنی قریظہ میں عصر کی نماز ادا کرلی اور وقت کی تاخیر کی کوئی پروا نہیں کی۔ جبکہ دیگر صحابہؓ نے اجتہاد کیا اوراس ارشاد نبویﷺ کو محض غایت سرعت پر محمول کیا اور یہ خیال کیا کہ بنوقریظہ ہی میں عصر پڑھنا مقصود نہیں ہے،بلکہ مقصود جلدی پہنچنا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے راستہ ہی میں وقت پر عصر کی نماز پڑھ لی، آپﷺ کو جب واقعہ کا علم ہوا تو آپﷺ نے کسی فریق کو بھی برابھلا نہیں کہا۔ گویا آپﷺ نے ان کے اجتہاد کو بھی معتبر مانا اور عمل بالظاہر کو بھی صحیح قرار دیا۔
(۳) مقام بدر میں مسلمانوں کی چھاؤنی بنانے کے سلسلہ میں غزوہ احزاب میں مدینہ کے اردگرد خندق کھودنے کے سلسلہ میں اورغزوہ احد میں مدینہ کے اندر یا باہر رہ کر مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں حضرات صحابہؓ نے جو کچھ بھی مشورہ دیا تھا۔ یہ ان کا اجتہاد تھا، آپﷺ نے ان کے اجتہاد کو معتبر مانا۔یہ تو حضرات صحابہؓ کے وہ اجتہادات تھے جو آپﷺ کی موجودگی میں انجام پائے تھے۔
ان حضرات کے بعض ایسے اجتہادات بھی ہیں جو انھوں نے آپﷺکی غیبوبت میں انجام دیے لیکن جب آپ ﷺکو اس کا علم ہوا تو آپﷺ نے اس کو صحیح قرار دیا، مثلاً:
(۱) کسی سفر میں حضرت عمرؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ کو غسل جنابت کی حاجت ہوئی ،پانی دستیاب نہیں تھا جس سے غسل کرسکتے۔ تیمم کی نوبت آئی، دونوں حضرات نے تیمم غسل کی کیفیت کے سلسلہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ حضرت عمار ؓ نے مٹی کے استعمال کو پانی پر قیاس کرتے ہوئے پورے جسم پر مٹی مل لی اور نماز ادا کی۔ حضرت عمر ؓ کا اجتہاد یہ تھا کہ مٹی جنابت دور کیسے کرسکتی ہے؟ انھوں نے نماز ہی نہیں پڑھی ۔ ان دونوں کے واقعہ کا آپؓ کو علم ہوا، تو آپﷺ نے کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی جس سے ان حضرات کے اجتہاد کی تردید وممانعت ثابت ہوتی ہو۔ بلکہ آپﷺ نے صرف اس قدر فرمایا کہ تیمم غسل اور تیمم وضوء میں کوئی فرق نہیں ہے پورے جسم پر مٹی لیپنے کی ضرورت نہیں تھی۔
(۲) حضرت عمروبن العاصؓ کو غزوہ ذات السلاسل میں غسل کی حاجت ہوئی، سردی اتنی سخت تھی کہ پانی سے غسل کرنا ممکن نہیں تھا آپؓ نے تیمم کیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ آپﷺ کو جب معلوم ہوا تو آپﷺ نے پوچھا کہ تم نے ناپاکی کی حالت میں ساتھیوں کو نماز پڑھا دی، حضرت عمر بن العاص ؓنے فرمایا: میں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہے : ولا تقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیماً۔ آپﷺ یہ جواب سن کر ہنس پڑےاور ان کے اس اجتہاد و استنباط پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔(31)
(۳) حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا قاضی بناکر بھیجنے کا وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں انھوں نے آخر میں کہا تھا: اجتہد برای آپﷺنے ان کے اس اجتہاد و قیاس کو نہ صرف معتبر مانا بلکہ ان کو شاباشی دی ۔چنانچہ آپﷺنے فرمایا: الحمد للّٰہ الذی وفق رسول رسول اللّٰہ بما رضی لہ رسول اللّٰہ۔(32)
اگر آپﷺ کے رہتے ہوئے حضرات صحابہؓ کا اجتہاد از رائے شرع ناجائز ہوتا تو آپﷺ حضرت معاذ ؓبن جبل کے اس جملہ کی فوراً تردید فرماتے؛ لیکن آپﷺ نے مذکورہ تمام واقعات میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادات کو معتبر مانا۔
یہ چند واقعات ہیں جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون وشریعت جامد ومعطل نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ایسی لچک موجود ہے کہ نوپیش آمدہ مسائل کو کتاب وسنت کے حدود میں رہتے ہوئے کتاب وسنت کے اصولی ہدایات پر منطبق کیا جاسکے۔ یعنی سیرت نبوی ﷺکا اجتہادی پہلو قیامت تک کیلئے یہ دروازہ کھلا رکھتا ہے کہ ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے جدید مسائل پر اسلامی قوانین واصول کو چسپاں کیا جائے اور لوگوں کے مصالح اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو شریعت کے مزاج اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔اخذ واستنباط کی یہ کوشش ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے اور دراصل یہ ہے کہ اجتہاد نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں ائمہ مجتہدین کے آراء کی تطبیق ہے جسے فقہ کی زبان میں”تحقیق مناط“کہا جاتا ہے۔ امام ابواسحاق شاطبی ؒنے لکھا ہے : اجتہاد کی یہ وہ قسم ہے جو قیامت تک باقی رہے گی۔(33)
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے نظام پراسلامی قانون کا انطباق ان مسائل ہی میں سے ہے جس کی ضرورت واہمیت سیرت نبوی ﷺسے ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ شریعت اسلامی کو زندہ و حاضر اور عصری ثابت کرنے کی سب سے بہتر اور واحد صورت یہی ہے کہ ہم اسلامی قانون کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ جدید مسائل وواقعات کا توازن اورمناسب حل پیش کرتا ہو۔
مصادر ومراجع
(1) الاحکام للآمدی 4/165، مسلم الثبوت 2/361، تیسیرالتحریر 4/183
(2) کشف الاسرار شرح اصول البزدوی 3/926، شرح الاسنوی علی المنہاج 3/194
(3) شرح الاسنوی علی المنہاج 3/194
(4) ارشاد الفحول 255
(5) اصول السرخسی 2/91
(6) الاحکام للآمدی 4/165
(7) التفسیر الکبیر للرازی 10/200-201
(8) اجتہاد الرسول 53
(9) الانفال 68
(10) التفسیر الکبیر 16/74
(11) فتح الباری 4/49
(12) فتح الباری 3/439
(13) اجتہاد الرسول 87
(14) شرح النووی لصحیح مسلم 10/190
(15) اجتہاد الرسول 88 سورة عبس
(16) سیرت ابن ہشام 2/272
(17) سیرت ابن ہشام 3/64-67
(18) اجتہاد الرسول 94
(19) سیرت ابن ہشام 4/104
(20) اجتہاد الرسول 96
(21) الاحکام لابن دقیق العید 2/201
(22) صحیح مسلم کتاب الاقضیہ
(23) فتح الباری 2/77-82
(24) سیرت ابن ہشام 2/257
(25) فتح الباری 1/486
(26) مسلم، کتاب المساجد(27) تفسیر الرازی 16/146
(28) فتح الباری 8/337-339(29) تفسیر رازی 16/73، الاحکام 4/216
(30) التحریر 527(31) ابوداؤد 1/141
(32) ابوداؤد 2/505(33) الموافقات 3/97